مسئلہ : از عبدالحفیظ کانپور
١۔ہم لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے۔ یہ درست ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ عقیدہ رکھنے والا اسلام سے خارج ہوجاتا ہے؟
٢۔جب لوگ ایک جگہ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں تو ان کے درمیان خدا موجود ہوتا ہے یہ کہنا چاہیے یا نہیں؟
الجواب: (١) اگرحاضروناظربہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں۔ یعنی ہر موجود اللہ تعالی کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے تو یہ عقیدہ حق ہے مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ کے بارے میں حاضر و ناظر کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالی کے بارے میں بولے تو وہ کفر نہ ہوگا جیسا کہ در مختار مع شامی جلد سوم ص٣٠٧ میں ہے : يا حاضر يا ناظر ليس يكفر وهو اعلم.
(٢) جب لوگ ایک جگہ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں تو ان کے درمیان خدا موجود ہوتا ہے ۔یہ نہیں کہنا چاہیے اس لیے کہ اللہ تعالی جگہ اور مکان سے پاک ہے_ عقائد نسفی میں ہے : لا يتمكن في مكان اس کے تحت شرح عقائد نسفی میں ص ٣٣ پر ہے : اذا لم يكن في مكان لم يكن في جهة لا علوولا سفل ولا غيرهما اوروہ جو پارہ ٢٨۔ رکوع ٢ ۔ میں ہے مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ ،تو اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی انہیں مشاہدہ فرماتا ہے اور ان کے رازوں کو جانتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے درمیان خدا تعالی موجود ہوتا ہے تفسیر جلال میں ہے : هو رابعهم بعلمه اور علامہ صاوی نے فرمایا : قوله بعلمه اي وسمعه وبصره ومتعلق بهم قدرته وارادته اھ _ اور تفسیر مدارک میں اس آیت کریمہ کے تحت ہے : يعلم ما يتنا جون به ولا يخفٰي وقد تعالٰى عن المكان علوا كبيرا ‘ اھ و هو تعالى اعلم بالصواب۔
كتبه : جلال الدین احمد الامجدی