مسئلہ
آج کل بڑی تیزی سے مزار کے نام پر نئے نئے خرافات وجود میں آ رہے ہیں ۔ کثرت کے ساتھ عورتیں مزارات پر جاتی ہیں ، اور اللہ و رسول اور صاحب مزار کی طرف سے لعنت کا طوق گلے میں ڈالتی ہیں ۔ مزارات کا طواف کرکے سخت گناہ کا ارتکاب ہو رہا ہے ۔ بہت سے مسلمان مزار کا سجدہ بھی کرتے ہیں ۔
فرضی مزارات میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ پیسہ کمانے اور عام لوگوں کو لوٹنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کبھی کسی نے کہہ دیا کہ خواب میں مجھ سے کہا گیا کہ یہاں مزار بناؤ تو وہاں مزار بنا دیا جاتا ہے۔ اب لوگ وہاں زیارت کو آنے لگے ، چادر اور پھول چڑھانے لگے ، عرس کرنے لگے ۔ یہ ساری چیزیں حرام و گناہ ہیں۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فتاوی عزیزیہ میں فرماتے ہیں : “لعن اللّٰهُ من زار بلا مزار” یعنی جو شخص فرضی مزار کی زیارت کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرماتا ہے ۔
( فتاوی عزیزیہ جلد اول ص ١٤٤ )
اعلی حضرت رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے فتاویٰ رضویہ شریف میں فرمایا : قبر بلا مقبور کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال ( چادریں چڑھانا وغیرہ ) کرانا گناہ ہے ۔
( فتاوی رضویہ شریف جلد ٩ ص ٤٢٧ )
بغیر دلیل شرعی کہیں بھی مزار بنانا جائز نہیں ہے ، اور خواب کی بنیاد پر مزار نہیں بنایا جا سکتا ہے۔
حضور اعلی حضرت رضی اللّٰهُ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے ، اور خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہو سکتی ۔
( فتاوی رضویہ شریف جلد ٩ ص ٤٢٦ )
آج کل ایسا کافی ہو رہا ہے کہ پہلے وہاں کچھ نہیں تھا اب بغیر کسی مردے کو دفن کیۓ قبر و مزار بنا دیا گیا اور پوچھو تو کہتے ہیں کہ خواب میں بشارت ہوئی ہے ، فلاں بابا نے خواب میں آ کر بتایا ہے کہ یہاں ہم دفن ہیں ہمارا مزار بناؤ۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح قبر و مزار بنانا ان پر حاضری دینا فاتحہ پڑھنا عرس کرنا اور چادر چڑھانا سب حرام ہے ، مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور اسلام کو بد نام کرنا ہے۔ اور خواب میں مزار بنانے کی بشارت عند الشرع كوئی چیز نہیں اور جن لوگوں نے ایسے مزارات بنالئے ہیں ان کو اکھاڑ دینا اور برائی کا نام و نشان ختم کر دینا بہت ضروری ہے ۔ بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ کسی بزرگ کی چھڑی عمامہ وغیرہ کوئی اس سے منسوب چیز دفن کرکے مزار بناتے ہیں اور کہیں کسی بزرگ کے مزار کی مٹی دوسری جگہ لے جا کر دفن کر کے مزار بناتے ہیں یہ سب ناجائز و گناہ ہے ۔
(غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح ص 59 )
جس مزار کے متعلق شک ہو کہ یہ کس کی مزار ہے؟ مسلمان کی یا غیر مسلم کی ، اس کے بارے میں اعلی حضرت رضی اللّٰهُ تعالی عنہ سے استفتاء ہوا ، استفتاء اور جواب پیش خدمت ہے ۔
سوال : جس شہید یا اولیاء اللہ کے مزار کا حال ہم کو معلوم نہیں ہے کہ آیا کسی کی مزار ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کس کی ہے؟ مرد اہل اسلام ، یہودی یا نصارٰی یا عورت یہود، یا نصارٰی یا مسلمان کی، تو اس مزار پر فاتحہ پڑھنا یا بطریق مذکور نیاز وغیرہ کرنا کیسا ہے، چاہئے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : جس قبر کا یہ بھی حال معلوم نہ ہو کہ یہ مسلمان کی ہے یا کافر کی، ا س کی زیارت کرنی ، فاتحہ دینی ہرگز جائز نہیں کہ قبرِ مسلمان کی زیارت سنت ہے اور فاتحہ مستحب ، اور قبرِ کافر کی زیارت حرام ہے اور اسے ایصال ثواب کا قصد کفر۔
( فتاویٰ رضویہ شریف جلد ٩ )
جب شک ہو کہ یہ مزار کس کی ہے ، مسلمان کی یا کافر کی ، ایسی صورت میں فاتحہ وغیرہ جائز نہیں ، تو فرضی مزار پر فاتحہ و عرس ، چادر و پھول وغیرہ بدرجۂ اولی ناجائز و حرام ہوگا۔
اور فرضی مزار کی تعمیر کے لیے چندہ دینا اور لینا یا مانگنا سب ناجائز ، کہ یہ گناہ پر اعانت ہے، اور قرآن سے اس پر منع صریح ۔ قال تعالی : ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ( سورۃ مائدۃ )
حاصل یہ کہ فرضی مزار کی زیارت کرنا ، چادر و پھول پیش کرنا ، وہاں فاتحہ پڑھنا ، منتیں مانگنا ، عرس کرنا ، وہاں کے کسی تقریب میں شرکت کرنا ، اس میں چندہ دیا یا لینا سب ناجائز و حرام اور گناہ کے کام ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ان سے ہماری حفاظت فرمائے ۔
پیشکش :
محمد شہاب الدین علیمی