مسئلہ
زید کے پاس خود کا مکان نہیں ہے بھائی نے کچھ عرصہ کے لیے مکان رہنے کو دیا اور کچھ رقم بھی دی قرض کے طور پر اب زید نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے کچھ رقم جمع کی جو کے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے اسکے پاس موجود ہیں وہ اسکا استعمال نہیں کرتا بیٹی کے لیے جمع کررہا ہے اور اسی میں ایام تشریق آجاے تو زید پر قربانی واجب ہونگی یا نہیں
جواب عنایت فرمائیں
شکریہ۔
ہبلی دھارواڑ
الجواب بعون الملک الوھاب
اگر زید کے پاس صرف باون تولہ چاندی ہے،مزید قابلِ زکاۃ مال سونا ، رقم، مالِ تجارت یا حوائج اصلیہ سے فارغ سامان وغیرہ موجود نہ ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں،کیوں کہ چاندی کا نصاب ساڑھے باون (٥٢.٥) تولہ چاندی(تقریباً ٦١٢گرام ٣٦ ملی گرام) ہے،اس سے کم پر نہ زکوٰۃ ہے نہ قربانی.
بدائع الصنائع میں ہے :
”فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون فی ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شیء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه ومايتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر“
(بدائع الصنائع،کتاب التضحیۃ،٤/ ١٩٦)
بہارشریعت میں ہے
جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کےسوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو ، جس کی قیمت دوسو درہم ہو ، وہ غنی ہے ، اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان ، جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ، ان کے سوا جو چیزیں ہوں ، وہ حاجت سے زائد ہیں۔“
(بہارِشریعت،جلد ٣/ ٣٣٣،مکتبۃالمدینہ، کراچی)
واضح رہے کہ گھر میں بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو حوائج اصلیہ سے زائد ہوتی ہیں،مثلاً گھر میں سجاوٹ کے سامان، ٹی- وی،زائد از ضرورت کپڑے اور جوتے چپل،قیمتی قالین وغیرہ،اگر ان کی موجودہ قیمت ملا کر چاندی یا سونے کا نصاب پورا ہوجائے تو ایسی صورت میں قربانی واجب ہے.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ ۔ کمال احمد علیمی نظامی
شادی کے لیے جمع کیے گیے مال پر قربانی ہے یا نہیں ؟
shadi ke jama paise per qurbani wajib hai ya nhi