مسئلہ : از محمد کلام الدین نظامی، مخدوم سرائے، سیوان، بہار
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کی امام و مقتدی نماز کے لیے کب کھڑے ہوں۔ تکبیر کہے جانے سے قبل یا بعد میں یا درمیان میں؟ زید ایک مسجد کا امام ہے جو اپنے آپ کو سنی صحیح العقیدہ مسلمان کہتا ہے لیکن نماز کے لیے تکبیر کے ساتھ تکبیر سے پہلے ہی کھڑا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ دوسرے مقتدی بھی تکبیر سے پہلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
تو کیا ایسی صورت میں اس زید امام کے پیچھے نماز پڑھنا شرعا درست ہے؟ زید کا کہنا ہے کہ میرے والد محترم کی وصیت ہے اس لیے میں وصیت پوری کرنے کے لیے تکبیر سے پہلے کھڑا ہو جاتا ہوں جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
” باسمه تعالى وتقدس“
الجواب بعون الملك الوهاب
حديث شريف كي عظيم كتاب ”مؤطا امام محمد“ میں محرر مذہب حنفی حضرت سیدنا ”امام محمد شیبانی“ قدس سرہ النورانی تحریر فرماتے ہیں” ينبغي للقوم اذا قال المؤذن حي على الفلاح ان يقوموا إلى الصلاة فيصفوا ويسووا الصفوف “ (١) یعنی تکبیر کہنے والا جب حی علی الفلاح پر پہنچے تو مقتدیوں کو چاہیے کہ نماز کے لیے کھڑے ہوں اور پھرصف بندی کرتے ہوئے صفوں کو سیدھی کریں۔
:اور ”فتاوی عالمگیری“ میں ہے
اذا دخل الرجل عند الاقامة يكره له الانتظارقائماً ولكن يقعدثم يقوم اذا بلغ المؤذن قوله ”حي على الفلاح“(٢) یعنی اگر کوئی شخص تکبیر کے وقت آئے تو اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے اور جب ”حی علی الفلا “پر پہنچے تو اس وقت کھڑا ہو۔اور” در مختار “میں ہے ”دخل المسجد والمؤذن يقيم قعد “(٣) اس عبارت کے تحت علامہ ”ابن عابدین شامی“ قدس سرہ فرماتے ہیں۔” يكره له الانتظار قائما ولكن يقعد، ثم يقوم اذا بلغ المؤذن حي على الفلاح “(٤) آدمی کا کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے اور جب مکبر حی الفلاح پر پہنچے تو کھڑا ہو۔ اور ”فتاویٰ عالمگیری“ میں ایک مقام پر ہے ”ان كان المؤذن غير الامام، وكان القوم مع الامام في المسجد، فانه يقوم الامام والقوم اذا قال المؤذن ”حي على الفلاح “عند علمائنا الثلاثة وهو الصحيح“(٥) یعنی اگر مکبر غیر امام ہو، اور لوگ امام کے ساتھ مسجد میں موجود ہوں تو امام ومقتدی سب اس وقت کھڑے ہوں جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے یہی ہمارے ائمہ ثلاثہ کا مذہب ہے اور یہی صحیح ہے۔
ان تمام ارشادات وعبارات سے مثل آفتاب روشن ہے کی تکبیر بیٹھ کر سنی جائے کھڑے ہو کر سننا مکروہ ہے علاوہ ازیں تکبیر سے پہلے نماز کے لیے کھڑا ہو جانا اس وقت وہابیوں کی علامت وپہچان بن گئی ہے تو اس سے پرہیز کرنا اور بھی زیادہ موکد ہے لہذا زید پر لازم ہے کہ تکبیر بیٹھ کر سنیں اور ہٹ دھرمی سے باز آئے زید کا یہ کہنا کہ یہ میرے والد کی وصیت ہے اس بات کا کچھ بھی اعتبار نہیں شرع کے مقابل کسی کی بھی غلط بات قابل عمل نہیں ہے ۔
: ارشاد نبوی ہے
لا طاعة في معصية إنما الطاعة في المعروف“(١) يعنى اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ۔فرمانبرداری تو صرف اچھے کام میں ہے زید کو حکم شرح بتایا جائے اگر تسلیم کر لے تو ٹھیک ورنہ ایسے ہٹ دھرم کی اقتدا نہ کی جائے۔
والله تعالى اعلم بالصواب واليه المرجع والمآب.
كتبه : محمد اختر حسين قادري