مسئلہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام شرع متین مسئلہ ھاذا میں زید بچوں کو دینی تعلیم پڑھاتا ہے اس کی اجرت بھی لیتا ہےاور روحانی علاج بھی کرتا ہے اس نے اپنے دروازے پر لکھ رکھا ہے کہ روحانی علاج کی فیس دوسو روپے ہے لیکن 100 یا50 روپپے بھی اور کم زیادہ بھی لے لیتا ہے بکر سے کسی وجہ سے ناراض تھا اس سے ہزار روپپے لیے بکر نے اعتراض کیا تو زید نے کہا میں اپنی چیز کا مالک ہوں جس کو جتنے میں چاہوں گا دوں گا زید کا یہ قول شرعا جائز ھے یا نہیں؟
المستفتی:-انیس احمد قادری رضوی نواب گنج
الـــــجـــــــواب
ھـــو المــوفـــق الــصــــواب
تعویذ بنانا اور اسے بیچنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو یعنی اس میں ناجائز الفاظ نہ لکھے ہوں یا شرک وکفر کے الفاظ پر مشتمل نہ ہو۔ اور جب تعویذ کا بیچنا جائز تو ہر شخص خودمختار ہے کہ وہ اپنا سامان جتنے میں چاہے بیچے بشرطیکہ عاقدین کی رضا مندی سے ہو یا بلا عوض ہی دیدے۔
جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں ” مال کہ عام بھاؤ سے سب کے نزدیک دس روپئے کی قیمت کا ہے ہر شخص کو جائز ہے کہ خدیدار کی رضامندی سے اُسے سو روپئے کو بیچے یا ایک پیسہ کو دیدے اور شرع مطہر سے اس بارے میں کوئی روک نہیں۔قال تعالیٰ “ألا أن تكون تجارة عن تراض منكم” یعنی اللّٰہ عز وجل فرماتا ہے “مگر یہ کہ کوئی سودا ہو تمھاری آپس کی رضامندی کا” اور فتح القدیر میں فرمایا کہ اگر ایک کاغذ ہزار روپے کو بیچا جائز ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 7ص 162)
نیز اسی میں ص 249 میں ہے “ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنا مال جو عام نرخ سے دس روپئے کا ہو برضائے مشتری سو روپیہ کو بیچے یا ایک ہی پیسہ کو دیدے.اھ
لہٰذا اگر زید بکر سے ہزار روپیہ میں تعویذ بیچتا ہے تو یہ جائز ہے جیسا کہ گزرا اب بکر کی مرضی لے یا نہ لے۔ البتہ بلحاظ شرع مطہر یہ جائز نہیں کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی سے بلا عذر شرعی تین دن سے زیادہ ناراض وخفا رہے۔ حدیث پاک میں ہے پیارے آقا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ” لَا يَحِلُّ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ” یعنی مومن کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تعلق چھوڑے رکھے۔
(صحيح مسلم كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
عبد المقتدر مصباحی
خادم دارالعلوم اہلسنت فیض النبی کپتان گنج بستی یوپی