کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ!
امسال شہر کٹک سے پانچ کیلو میٹر دورکھپریا چھک جو کاٹھ جوڑی ندی کا کنارا ہے وہاں رمضان کا چاندایک باشرع مرد صالح نے دیکھا
جبکہ وہاں کامطلع تھوڑاصاف تھا اور اس کے قریب کوئ مسلمان نہ تھاجو چان دیکھتا- اور نہ قریب میں کوئ مسلم أبادی ہے
اور پورے شہر کٹک میں أسمان ابر آلود تھا بلکہ اڈیشا کے بیشتر علاقے ابر آلود تھے
اب اس مرد صالح کی گواہی قبول ہوگی یا رد کی جائے گی ؟
فقہ حنفی کی روشنی میں بحوالۂ کتب معتبرہ مع عبارات جواب سے نوازکر عنداللہ ماجور ہوں
فقط و السلام
المستفتی:عبد القادر کٹک اڈیشا
الجواب بعون الملک الوھاب . اگر مطلع صاف نہ ہو یعنی کہ آسمان پر بادل، دھواں، گرد و غبار کا اثر ہو تو اس صورت میں رمضان المبارک کے چاند کے لئے ایک دیندار، پرہیزگار، سچے آدمی کی گواہی معتبر ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت ،آزاد ہو یا غلام- یوں ہی جو مستور الحال ہو یعنی اس کا فسق ظاہر نہ ہو اور بظاہر وہ دیندار ،پرہیز گار معلوم ہوتا ہو تو اس کی گواہی بھی معتبر ہے
امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان در مختار کے حوالہ سے رقم طراز ہیں ”ابر و غبار کی حالت میں ہلال رمضان کے لئے ایک عادل یا مستور الحال کی خبر کافی ہے اگر چہ غلام ہو یا عورت- رویت کی کیفیت بیان کرے خواہ نہ کرے دعوی یا لفظ اشهد یا حکم یا مجلس قاضی کسی کی شرط نہیں مگر فاسق کا بیان بالاتفاق مردود ہے اور عید کے لیے بحال ناصافی مطلع عدالت کے ساتھ دو مرد یا ایک مرد و دو عورت کی گواہی بلفظ اشھد ضرور ہے اور اگر ایسے شہر میں ہوں جہاں کوئی حاکم اسلام نہیں تو بوجہ ضرورت بحال ابر و غبار ایک ثقہ شخص کے بیان پر روزہ رکھیں اور دو عادلوں کی خبر پر عید کر لیں-اھ
(فتاوی رضویہ جلد چہارم ص ٥۴۷)
لہذا مذکور فی السوال شخص اگر باشرع نیک وپرہیزگار ہے تو اس کی بات بسلسلۂ صیام رمضان المبارک قابل قبول ہے۔
و اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
كتبه :- عـــبــدالـــمــقــتـدر
مـــصـــبــاحـی نـــظــامـــي
خادم: دارا العلوم اهل سنت فیض النبی کپتان گنج بستی