(فتاویٰ رضویہ:جلد اول:ص 601-جامعہ نظامیہ لاہور)
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کو دھونا مستحب قرار دیا، کیوں شافعی مذہب میں ٹھوڑی کے نیچے کے بال چہرہ میں شامل ہیں۔
محتاط حنفی اورمحتاط شافعی کا طرز عمل:
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”اب یہ غورکیجئے کہ علمائے دین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اہل حق وہدیٰ کے مذاہب مختلفہ مثلاً باہم حنفیہ وشافعیہ میں ایک کی دوسرے سے اقتداپرکیاکلام کیاہے۔یہ مسئلہ ہمیشہ سے معرکۃ الآرارہااور اس میں تکثر شقوق واختلاف اقوال بشدت ہواہمیں یہاں صرف اس صورت سے غرض ہے کہ دوسرے مذہب والاجونماز وطہارت میں ہمارے مذہب کی مراعات نہ کرے اور خروج عن الخلاف کی پروانہ رکھے،اس کے پیچھے نمازکاکیاحکم ہے۔ پہلے اس احتیاط ومراعات کے معنی سمجھ لیجئے۔
بعض باتیں مذاہب راشدہ میں مختلف فیہ ہیں، مثلاً فصدوحجامت سے شافعیہ کے نزدیک وضونہیں جاتا،ہمارے نزدیک جاتارہتاہے۔ مس ذکرومساس زن سے ہمارے نزدیک نہیں جاتا، ان کے نزدیک ٹوٹ جاتاہے، دوقلہ پانی میں اگرنجاست پڑجائے،ان کے مذہب میں ناپاک نہ ہوگا،ہمارے نزدیک (ناپاک) ہوجائے گا۔ان کے نزدیک ایک بال کامسح وضو میں کافی ہے،ہمارے یہاں ربع سرکاضرور۔ ہمارے مذہب میں نیت وترتیب وضومیں فرض نہیں،ان کے نزدیک فرض، وعلیٰ ہذا القیاس۔
اس قسم کے مسائل میں باجماع ائمہ آدمی کو وہ بات چاہئے جس کے باعث اختلاف علمامیں واقع نہ ہو، جب تک یہ احتیاط اپنے کسی مکروہ مذہب کی طرف نہ لے جائے تومحتاط شافعی فصدوحجامت سے وضوکرلیتے ہیں اور مسح میں بعض پرقناعت نہیں کرتے اور محتاط حنفی مَسِ ذکرومساس زن سے وضوکرلیتے ہیں او رترتیب ونیت نہیں چھوڑتے کہ اگرچہ ہمارے امام نے اس صورت میں وضو واجب نہ کیا،منع بھی تونہ فرمایا، پھرنہ کرنے میں ہماری طہارت ایک مذہب پرہوگی، دوسرے پرنہیں اور کرلینے میں بالاتفاق طاہرہوجائیں گے اور اپنے مذہب میں وضو علی الوضو کاثواب پائیں گے۔
جوایسی احتیاط کاخیال نہیں کرتے اور دوسرے مذہب کے خلاف ووفاق سے کام نہیں رکھتے، جمہورمشائخ کے نزدیک ان کی اقتداجائز نہیں کہ صحیح مذہب پررائے مقتدی کا اعتبار ہے۔جب اس کی رائے پرخلل طہارت یااور وجہ سے فسادنماز کا مظنہ ہو،یہ کیوں کر ایسی نماز پراپنی نماز بناکرسکتاہے،خانیہ وخلاصہ و سراجیہ و کفایہ و نظم و بحرالفتاویٰ و شرح نقایہ و مجمع الانہر وحاشیہ مراقی الفلاح وغیرہاکتب میں اس کی تصریح فرمائی اور اسے علامہ سندی، پھر علامہ حلبی، پھرعلامہ شامی نے بہت مشائخ اور علامہ قاری نے عامہ مشائخ کرام سے نقل کیا“۔
(رسالہ:النہی الاکید:فتاویٰ رضویہ:جلد ششم:ص 695-جامعہ نظامیہ لاہور)
امام کے لیے لازم ہے کہ حتی الامکان دیگر فقہی مذاہب کی رعایت کرے۔
تنہا نمازی تمام مذاہب فقہیہ کی رعایت کرے:
مسئلہ: ۴۳۳۱: از افریقہ جوہانس برگ
مرسلہ: محمد ابراہیم صاحب شافعی ۳۱: شعبان۷۲۳۱ھ
امام حنفی ہے اور مقتدی شوافع بھی ہیں۔اگر خطبہ اُولیٰ جمعہ میں امام”اوصیکم بتقوی اللّٰہ“ نہ پڑھے،اور درود شریف نہ پڑھے توشوافع کی نماز ہوگی یا نہیں؟
الجواب:مذہب شافعی پر شافعی کی نماز نہ ہوگی کہ وصیت و درود ان کے نزدیک ارکانِ خطبہ سے ہیں اور خطبہ بالاتفاق شرط صحت نماز جمعہ۔جب رکن فوت ہوئے خطبہ نہ ہوا، جب خطبہ نہ ہوا،نماز نہ ہو ئی۔
کتاب الانوار میں ہے:لصحۃ الجمعۃ وراء الشروط العامۃ شروط الٰی ان قال:السابع:خطبتان قبل الصلٰوۃ-وارکانھما خمسۃ:حمد اللّٰہ تعالٰی،الثانی الصلٰوۃ علٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم،الثالث الوصیۃ بالطاعۃ والتقوی-اھ ملتقطا
صحت جمعہ کے لیے شروط عامہ کے علاوہ ساتویں شرط یہ ہے کہ نماز سے پہلے دو خطبے ہوں، اور اس کے ارکان پانچ ہیں۔ایک اللہ تعالیٰ کی حمد،دوسرانبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں درود و سلام، تیسرا اطاعت وتقوٰیٰ کی نصیحت -اھ ملتقطا (ت)
اسی میں ہے:لصحۃ الاقتداء شروط،الاول ان یکون الامام مظھر مسلما،الثانی ان تصح صلٰوتہ باعتقاد الماموم-فلو اقتدی الشافعی بالحنفی وقد مس فرجہ او ترک البسملۃ-او الحنفی بالشافعی الذی افتصدا اواحتجم ولم یتوضأ بطلت صلٰوتہ-اھ مختصرا۔
صحت جمعہ اقتداکے لیے شروط ہیں۔اول یہ کہ امام مسلمان طاہر ہو، دوسرا یہ کہ اس کی نماز مقتدی کے اعتقاد کے مطابق درست ہو۔ اگر شافعی نے کسی حنفی کی اقتدا کی تو امام نے شرمگاہ کو چھولیا، یا اس نے بسم اللہ ترک کردی، یاحنفی نے ایسے شافعی کی اقتدا کی جس نے رگ کٹوائی، یاپچھنے لگوائے اور وضو نہ کیا توا قتدا کرنے والے کی نماز باطل ہوجائے گی۔ اھ اختصاراً
فتاویٰ امام ابن حجر مکی شافعی میں ہے:ان علم انھم یترکون بعض الارکان او الشروط لم تصح منھم جمعۃ فلا یجوز لاحد ان یصلی معھم(ملخصا)
اگریہ جان لیا گیا ہو کہ انھوں نے بعض ارکان یا شرائط کو ترک کردیا ہے توان کا جمعہ صحیح نہ ہوگا،لہٰذا ان کے ساتھ جمعہ کی ادائیگی درست نہ ہوگی -اھ (ملخصاً)
dadhi ke latakte hue balo ka dhona mustahab hai
داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کو دھونا مستحب ہے