(قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة(مقدمه

قصیدے کی ابتدا
قصیدے کی ابتدا سرزمینِ عرب سے ہوتی ہے۔ عربوں میں شعر و شاعری کا ذوق زمانہ قدیم سے تھا۔ عرب میں شعر و شاعری کا آغاز کب سے ہوا اس کا درست پتہ آج تک نہیں لگایا جا سکا۔ ہاں! عربی ادب کی کتابوں میں امرءالقیس کو پہلا قصیدہ گو تسلیم کیا گیا ہے۔ اور اس کا زمانہ چھٹی صدی قبل مسیح کے قریب کا ہے۔ لیکن امرءالقیس کے کلام کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قصیدے کی ابتدائی شکل ہو یعنی امرءالقیس کی شاعری اور قصیدہ گوئی اعلیٰ درجہ کی ہے، جبکہ کسی بھی فن کے ابتدائی کلام ایسے نہیں ہو سکتے۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ امرءالقیس سے پہلے بھی عربوں میں اعلیٰ درجہ کی شاعری کرنے والے لوگ موجود رہے ہوں گے۔ عربوں میں امرءالقیس کے بعد نابغہ، زہیر ابن ابی سلمیٰ جیسے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے۔

قصیدے کا فن ایران میں

فن قصیدہ نگاری ایران میں عربوں کے توسط سے ہی پہنچا ۔ ایران میں جب شعر و شاعری کا آغاز ہوا تو ایرانی شعراء نے اہل عرب کی تقلید میں قصیدے کہنے شروع کئے،چونکہ عرب میں ایسے قصائد بہت مقبول تھے جس میں کسی کی مدح کی گئی ہو، لہذا ایرانی شعرا نے مال و متاع اور انعام و اکرام کی توقع میں قصیدہ گوئی کا آغاز کیا اور اسے ترقی دیکر بلندی پر پہنچایا۔ قدیم ایرانی قصیدہ نگاروں میں ابوالفرج، عبدالواسع، میر معری نیشاپوری، رشیدالدین وطواط قابل ذکر ہیں۔ پھر ایران سے یہ فن منتقل ہوتا ہوا ہندوستان میں پہنچا۔

فن ِقصیدہ نگاری ہندوستان میں

ہندوستان میں قصیدہ کا فن دیگر شعری اصناف کی طرح فارسی کے توسط سے آیا ہے اور سب سے پہلے دکن میں اس کے نمونے ملتے ہیں۔ قصیدے کے ابتدائی نقوش دکن میں بہمنی دور سے ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس عہد کے قصیدہ نگار مشتاق، لطفی اور شیخ آذری ہیں۔ اس زمانے میں شعر و شاعری کا شوق رکھنے والے لوگ عموماً بزرگان دین اور صوفیائے کرام تھے اسی وجہ سے اس زمانے کے قصیدوں میں زیادہ تر تصوف، حمد، منقبت اور نعت جیسے مضماین ملتے ہیں۔ خواجہ گیسو دراز بندہ نواز اسی زمانے کے صوفی شاعر گزرے ہیں جن کی تصنیف معراج العاشقین ہے۔

ہندوستان میں عربی شاعری کاآغاز

ہندوستان میں عربی شاعری کا سلسلہ دوسری و تیسری صدی ھجری ہی میں شروع ہوچکا تھا ۔اسی صدی کے عظیم عربی شاعر ابو العطا افلح بن یسار سندھی تھے ان کے کل ۱۳۴ عربی اشعار ہیں ،اسی طرح منصور ہندی ،سندھی بن صدقہ اور ہارون بن موسی ملتانی وغیرہم اپنے عہد کے بے انتہائی قادر الکلام عربی شعرا تھے ۔اورہندوستان کے عربی شعرا میں ہارون ملتانی کو یہ فخر حاصل ہے کہ عربی زبان و ادب کے’’ ابو الآبا،، کہے جانے والا جاحظ نے اپنی شہرہ آفاق کتا ب ’’کتاب الحیون ،،میں ہاتھی کے متعلق ان کے۳۶ اشعار لیے ہیں ۔ (١)

حضرت امیر خسرو رحمہ الله (وفا ت ۷۲۵ھ) اردو و فارسی کے ساتھ عربی زبان کے بھی عظیم ادیب و شاعر تھے ان کے عربی اشعار کی تعداد ۴۰۰۰۰۰ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے ۔یہ وہ شاعر ہیں جن میں قدیم ادبا کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ،
ہندوستان کے وہ علماء و فقہاء اور ادباء و شعراء جنھوں نے عربی نظم و نثر میں اپنی بیش قیمت نگارشات یاد گار چھوڑی ہیں، ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی یہ ہیں

ملّا قاضی محبّ اللہ بہاری، قاضی شہاب الدین دولت آبادی، ملاّ احمد جیون امیٹھوی، شیخ امان اللہ بنارسی،شیخ وجیہ الدین علوی گجراتی، شیخ علی متّقی، میر عبد الواحد بلگرامی، شیخ مرتضیٰ زبیدی بلگرامی، شیخ عبد الحلیم فرنگی محلی، شاہ ولیّ اللہ محدّث دہلوی، شاہ عبد العزیز محدّث بریلوی، علامہ فضلِ حق خیر آبادی، علامہ عبد الحی فرنگی محلی،شیخ احسن اللہ عبّاسی بھاگل پوری، علامہ ظہیر احسن شوق نیموی۔
اور چودہویں صدی ہجری کے ادباوشعرا میں اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی (قدس سرہ العزیز) کوایک نمایامقام حاصل ہے
‫- جن کا عربی کلام جامعہ ازہر کے مصری محقق پروفیسر حازم محمد احمد نے بساتین الغفران کے نام سے مرتب کیا ہے۔ اسی میں آپ کاایک قصیدہ بنام (قصیدہ دالیہ) بھی ہے جو بحر کامل مجزو میں ہے جسکا مطلع اسطرح ہے:

الحمدللمتوحدٖ☆ بجلاله المتفردٖ

فقیر قادری نے یہ (قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة )لکھنے سے پہلے اعلی حضرت فاضل بریلوی رضی الله تعالی عنہ کے اسی قصیدہ دالیہ کومطالعہ کیا، چونکہ یہ (قصیدہ تاج الشریعہ) بھی اسی بحر کامل مجزو میں ہے،
بہرکیف !
اعلی حضرت فاضل بریلوی کے عربی کلام میں سلاست و روانی کی رنگا رنگی بہت نمایاں ہے اور بے ساختگی، عربی تراکیب کی بندش اور مناسب و برمحل الفاظ کے استعمال پر اعلی حضرت کو یدطولی حاصل تھا۔ تشبیہات و استعارات امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کے کلام کی عدیم المثال خصوصیات ہیں۔ آپ کاعربی کلام کلام منتشر اوراق اور مخطوطات میں غیر مرتب پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حامد علی خان (مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) نے شعبۂ عربی سے ہندوستان میں عربی شاعری کے موضوع پر جو تحقیقی مقالہ پی ایچ ڈی کے لیے لکھا، اس میں مختلف مآخذ سے آپ کاعربی زبان میں اشعار کو بھی اکٹھا کیا جن کی مجموعی تعداد ٣٩٠/ ہے۔ محمود احمد کانپوری نے بھی مختلف مآخذ سے ١١٤٥/ اشعار یکجا کیے تھے۔ جب کہ ڈاکٹر محمود حسین بریلوی نے اپنے ایم فل کے مقالہ جو اعلی حضرت فاضل بریلوی کی عربی زبان و ادب میں خدمات کے عنوان سے طبع شدہ موجود ہے، اس میں ١١٢٠ جمع کیے ہیں اشعار جمع کیے ہیں – (٢)

بلاشبہ اس پندرہویں صدی ہجری کے ادباوشعرا میں سرزمین ہند کے اندر،مرشدِ برحق حضورتاج الشریعہ کوعربی زبان و ادب میں مقامِ امتیاز ایک مسلّمہ حقیقت ہے، عرب و عجم کے اہلِ علم و قلم نے آپ کی عربی دانی کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور آپ کو ” سلطان الادباء” کا خطاب دیا ہے۔ آپ کا گراں قدر عربی ” حاشیہ بخاری” قصیدہ بردہ شریف کی عربی شرح ” الفردہ ” اور عربی نعتیہ مجموعہ ” روح الفؤاد بذکری خیر العباد ” معروف بہ “نغماتِ اختر” آپ کے باکمال عربی ادیب و شاعر ہونے پر دال ہیں۔
اور ایک درجن سے زائد علوم و فنون پر مجتہدانہ بصیرت رکھنے کے علاوہ عربی زبان و ادب میں صلاحیتوں کے مالک تھے۔اپنی مادری زبان کی طرح عربی بولتے تھے اور لکھتے تھے۔آپ کی عربی دانی کا اعتراف جامع ازہر، مصر کے علماء و اساتذہ نے بھی کیا ہے۔زمانہ طالب علمی میں جب آپ اپنے مصری اساتذہ سے عربی زبان میں گفتگو فرماتے تو وہ لوگ حیران رہ جاتے اور کہتے کہ ایک ہندوستانی عجمی طالب علم ایسی فصیح عربی بولتا ہے ۔

(٣)قصیدہ لغت میں
لفظ قصیدہ عربی زبان کے لفظ ’’قصد‘‘ سے مشتق ہے،جس کا لغوی معنیٰ آتاہے ارادہ کرنا۔
۔ قصیدے کا ایک دوسرا معنیٰ ’’مغز‘‘ بھی آتا ہے۔ گویاقصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں وہی مقام و مرتبہ حاصل ہے جوایک انسانی جسم و اعضاء میں سر یا مغز کو حاصل ہے۔

قصیدہ اصطلاح میں:

اصطلاح میں قصیدہ ایسے صنف سخن کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح یا ہجو کے علاوہ مختلف موضوعات پر منظوم کلام پیش کیا جائے۔
ابن خلدون قصیدے کی تعریف میں لکھتاہے’’ قصیدہ ایک مفصل کلام ہے مختلف حصوں میں مساوی وزن میں ہوتا ہے۔ ہر جزو کے اخیر میں حروف متحد (کہا قافیہ) ہوتے ہیں، ان میں سے ہر قطعہ بیت (شعر) کہا جاتاہے ۔اور آخری حروف کو ردیف اور قافیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ مکمل کلام کو شروع سے اخیر تک قصیدہ کہا جاتا ہے‘‘۔ (٤)

قصیدے میں اشعار کی تعداد

اھل علم وفن تحریر کرتے ہیں:

قصیدے میں اشعار کی کم سے کم تعداد کسی نے سات ( ٧) کسی نے بارہ کسی نے پندرہ ( ١٥ ) کسی نے اکیس (٢١ ) اور کسی نے پچیسں (٢٥ ) بتائی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اشعار کے لیے عام خیال یہ ہے کہ کوئی حد نہیں لیکن بعض اہل قلم نے زیادہ سے زیادہ اشعار کی تعداد ایک سو بیس (١٢٠)اور ایک سو (١٧٠) لکھی ہے بالعموم پانچ سے لے کر دو سو (٢٠٠ ) اشعار تک قصائد میں ملتے ہیں ( ٥)

قصیدے کے اجزاے ترکیبیہ

اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے قصیدے کی دو قسمیں ہیں ایک مشبب اور دوسری مقتضب ۔ مشبب اس قصید ے کو کہتے ہیں جس میں تشبیب اور گریز کی پابندی ہو اور جس میں یہ پابندی نہ ہو ، اسے مقتضب کہا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ درباری یا مذہبی قصیدوں میں حسن طلب یا مدعا کے آخری حصے میں دعائیہ اشعار بھی شامل کر دیے جاتے ہیں-

اورہیئتی اعتبار سے قصیدہ نظم کے مانند ہوتا ہے۔ جس طرح نظم میں خیالات و مضامین مربوط اور مسلسل ہوتے ہیں اسی طرح قصیدے میں بھی، مگر معانی و مفاہیم کے اعتبار سے قصیدہ عموماً چار اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔جو حسب ذیل ہیں

(۱)تشبیب (۲) گریز (۳) مدح (٤) خاتمہ۔
مطلع: تشبیب سے پہلے مطلع کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ قصیدہ کا پہلا شعر مطلع کہلاتاہے۔ عام طور پر تشبیب کی ابتداء مطلع سے ہوتی ہے۔ مطلع کیلئے ضروری ہے کہ دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں۔ مطلع کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، مطلع کے حسن و قبح سے قصیدے کی خوبی یا خامی کا پتہ چلتاہے،
اس (قصیدة طهيرة في مدح تاج الشريعة) کامطلع اسطرح ہے:

أبكي بذكر الباعدٖ☆اوومضة في المهجدٖ

(١) تشبیب
یہ قصیدے کا پہلا جز ہے یعنی قصیدے کے وہ اشعار جو قصیدے کے ابتدا میں بطورتمہید کہے جاتے ہیں خواہ وہ مدحیہ قصیدے کی تمہید ہویاپوری نظم کاموضوع ہو تشبیب کہلاتاہے۔ اس کا دوسرا نام’’ نسیب‘‘ ہے۔ تشبیب کے اندر شاعر اپنے ممدوح کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کیلئے اور اپنی علمی لیاقت و قابلیت کا اظہار کرنے کیلئے دلچسپ اور قابل توجہ مضامین کا انتخاب کرتا ہے، تاکہ اسے سن کر ممدوح پوری طرح شاعر کی طرف متوجہ ہو جائے اور شاعر اپنے مقصد کو رکھنے میں کامیاب ہو جائے۔ تشبیب کے اندر ہر طرح کے مضامین کی گنجائش رہتی ہے۔ تشبیب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں بیان کردہ مضامین ممدوح کے شایان شان ہونے کے ساتھ ساتھ بعد میں آنے والے مدحیہ اشعار سے مناسبت بھی رکھتے ہوں۔

(٢) گریز
یہ قصیدے کادوسرا جز ہے
جو اپنےنام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر تشبیب سے ہٹ کر اصل موضوع یعنی مدح کی طرف آنے کیلئے چند اشعار پڑھتا ہے جو گریز کہلاتے ہیں۔ گریز کی خوبی یہ ہے کہ شاعر ایسے شعر کا انتخاب کرے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ شاعر زبردستی ممدوح کی تعریف کر رہا ہے،کیونکہ تشبیب اور گریز الگ الگ چیزیں ہیں، اس لئے اشعار ایسے ہوں کہ معلوم ہوکہ باتوں باتوں میں ممدوح کا ذکر آگیا ہے۔ گریز میں ایک سے دو اشعار ہوتے ہیں اس کو خروج،توسل،تخلص بھی کہتے ہیں-

(٣) مدح:

قصیدے کا تیسرا اور سب سے اہم رکن مدح ہے۔ قصیدے کا اصل مقصد ممدوح کی مدح کرنا ہوتاہے، گویا کہ تشبیب اور گریز مدح کیلئے مقدمہ کا کام کرتے ہیں۔ اس میں ممدوح کی ذات کے جملہ اوصاف کے اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں-

خاتمہ:
یہ قصیدے کا آخری حصہ ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے ذاتی حالات اور اغراض و مقاصد کو بیان کرتا ہے۔ اس میں ممدوح کی صحت و تندرستی، درازیِ عمر، شان و شوکت، مال و زر کی بڑھوتری اور ترقی وغیرہ کیلئے بزرگان دین کے وسیلے سے خدا تعالیٰ سے دعا کرتاہے، اور انہیں دعائیہ اشعار پر قصیدے کا اختتام ہوتا (٦)

سببِ تصنیف:

مرشدِ اجازت ،مرشدِ برحق حضور تاج الشریعہ (قدس سرہ العزیز) کے وصال پرملال کے بعد اچانک دل میں ایک امنگ پیدا ہوئی ،کہ مرشد کامل ،مرشد برحق کی بارگاہ میں بزبان عربی ایک منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں، جس سے علما،طلبہ،عوام سبھی مستفید و مستفیض ہوسکیں،اورمیرے لیے بروز حشر بخشش ومغفرت کاذریعہ بن جاے، قصیدہ کا آغاز کرنے سے قبل میں نے بعدنمازِ فجر مرشد برحق کے مزار پرحاضردی، اورشیخ مکرّم کے وسیلہ پاک سےاخلاص نیت کے ساتھ اس کام کے تکمیل کے لیے اپنے رب سے خصوصی دعامانگی-
بلاشبہ ایک عجمی کے لیےعربی زبان میں قصیدہ گوئی دشوارکن مرحلہ تھا،كما لايخفي علي من له ادنی علم ومعرفةبهذا الفن.
بہر کیف!
توکلاً علی الله اس قصیدے کی تصنیف میں مشغول ہوگیا،جب کام شروع کیا تھا تو میں نے یہ کبھی سوچابھی نہیں تھا کہ کام اتنا طویل ہوجائے گا،چونکہ کام کے آغاز میں صرف مرشد برحق (قدس سرہ العزیز) کی باگاہ میں منظوم خراج عقیدت پیش کرنے کے سواکوئی مقصد نہ تھا،لیکن یہ سب مرشدِ اجازت، کی نگاہ فیض،مشائخ عظام کی دعاوں،اور احباب کی حوصلہ افزائی کاثمرہ ہے کہ تدیجاً تدریجاً ایک مستقل کتاب تیار ہوگی-
میں نے سب سے پہلے تقریباً ڈھائی تین ماہ کے اندرصرف (٧٥)اشعارلکھےتھے،
جن (٧٥)اشعار کو عزیز القدر،مولانا خالد رضوی منظری بہرائچی ( سلمہ)نے اپنی دستارِ فضیلت کے پُر بہار موقع پر
(قصيدة رائقة في مدح تاج الشريعة) کے نام سے ایک کتابچہ کی شکل میں طباعت کراکے ،اھل علم وفن خصوصاً اپنے دوست واحباب میں تحفتاً تقسیم کیے،جن کو اھل علم وفن نے خوب پسند کیا،اپنی خاص دعاوں سے نوازا،اورحوصلہ افزائی کرتے ہوےکہاکہ :
یوں توحضور تاج الشریعہ (قدس سرہ العزیز)کے وصال شریف کے بعد دنیابھرکےعلما کرام ومشائخ عظام نے اپنےاپنے انداز میں اس نابغہ روز گار شخصیت، وارث علوم اعلی حضرت ،یادگارِحجۃ الاسلام ،کی ذات والا صفات کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرکے آپ کے اوصاف جمیلہ اور فضائل و کمالات عظیمہ کو اپنے اپنے مخصوص انداز میں قلمبند کیا ہے،لیکن اس عربی منظوم خراج عقیدت میں جدّت ہے،چونکہ اسطرح کی عربی منظوم میں خراج عقیدت حضور تاج الشریعہ (قدس سرہ العزیز)کی شان میں ابھی تک ہماری نگاہوں سے نہیں گزری،کچھ ایسے مزیداشعار لکھنے کی پرخلوص گزارش کی جن میں شیخ (رحمہ الله)کی دینی خدمات ،دینی زندگی،علمی کارناموں پر مشتمل ہوں،لیکن کثرت مصروفیات کی وجہ سے یہ کام تقریباً چار ماہ تک موقوف رہا،اسی دوران عالمی سطح پر”کروناوائرس” آگیااور پورے ملک میں لاکڈاون لگ گیا،پھرمکمل توُجّہ اس قصیدے کی تصنیف کی طرف مبذول ہوگی ،اور (٣٦) اشعار شیخ (رحمہ الله)کی دینی خدمات،دینی کارناموں پر مشتمل قلمبند کردیے،بایں طور(ا۱۱) اشعار،
مرشد برحق (قدس سرہ العزیز) فضائل وکمالات، دینی خدمات،علمی زندگی ،وصال شریف،اور تاریخی جنازے پر قلمبند ہوگیے،
لیکن مسلسل ملکی حالات سازگارنہ ہونے کی وجہ سے پورا سال ہی لاکڈاون لگارہا، مدرسہ کی تعلیم کا سلسلہ بھی آن لائن جاری رہا،چنانچہ قصیدے پر کام کرنے کے لیے پورا سال مل گیا،اوریہ فرصت کے لمحات میرےلیے بڑے نیک فال ثابت ہوے،میں نے بھی ان ایام فرصت کواپنے لیے غنیمت سمجھا،اور شب وروز اسی تصنیفی کام میں مشغول رہا،
اسی کے پاداش میں حضور تاج الشریعہ (قدس سرہ العزیز) کے علاوہ آپ کے آباء واجداد ، بالخصوص اعلی حضرت ،حضور حجۃ الاسلام،حضور مفتی اعظم ہند،حضور مفسر اعظم ہند،حضور ریحانِ ملت،سبھی کی دینی خدمات،دینی حیات پرمشتمل سو(۱٠٠)اشعار مزید اور لکھے،بحمدہ تعالی! پورے (۲۱۱) اشعارمع اردو ترجمہ مکمل ہو گیے‫-
لیکن۔
صاحب البيت ادرى بما فيه

کےپیشِ نظر،کچھ اھل علم وفن نے فقیر قادری کی عربی حاشیہ کی طرف توجہ مبذول کرائی (جس میں ہر شعر کی حل لغات،ترکیب نحوی،محاسن بلاغت،اورہر شعر کا عربی میں وضاحتی معنی بھی ہو) تاکہ ہر شعر کامعنی ومفہوم سمجھنے میں کسی طرح کی کی کوئی دقت ودشواری درپیش نہ آے، چنانچہ اھل علم وفن کی گزارش پر فقیرقادری نے اس(قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة) کا عربی حاشیہ بھی لکھنا شروع کر دیا۔
بڑی عرق ریزی ،نہایت جانفشانی،مسلسل کدّوکاوش سے عربی حاشیہ کا کام بھی بحمدہ تعالی! ایک سال کے اندر اندر پائے تکمیل کو پہنچ گیا،اورمحافظ شریعت وطریقت حضرت علامہ محمد سبحان رضا خان سبحانی میاں( مدّ ظلہ العالی) اور حضرت علامہ ومولانا الحاج الشاہ مفتی محمداحسن رضاخاں قادری سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ کے مبارک ہاتھوں سے اس کا رسم اجرا، (۲۴) صفر المظفر ۱۴۴۳ھ کی شب میں عرس رضوی کے منبر سے عمل میں آیا اورپچیس (۲۵) صفر المظفر ١٤٤٣ھ بروز اتوار ،مطابق،٣ /اکتوبر٢٠٢١ء کو عرس رضوی کے منبرنورپر،مشائخ عظام بالخصوص
ممتازالفقہا، استاذالاساتذہ سند المدرسین، امیر المومنین فی الحدیث، مناظر اعظم ہند، مفتی الحاج الشّاہ حضرت علامہ ضیاءُالمصطفٰے قادری رضوی امجدی ( حُــضــور مُـحـدّثِ کبیر) بانی و سرپرست اعلی جامعہ امجدیہ رضویہ ،گھوسی، (یوپی‌) ، کے مبارک ہاتھوں سے قصیدہ تاج الشریعہ:”قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة“ کا رسم اجرا عمل میں آیا-

قصيدہ تاج الشریعہ کی اہمیت

حضورمحدّثِ کبیر(مد ظلہ الاقدس)نے رسم اجرا کے درمیان اپنی کثیردعاوں سے نوازتے ہوے “قصیدہ تاج الشریعہ” کی اہمیت یوں بیان فرمائی
”اِس قصیدے میں قواعد صرف ونحو،اورعربی ادب کے بھر پور معانی و بیان،محاسن کلام کا مظاہرہ کیا گیا ہے، اس قصیدے کی تمام خوبیوں پراھل علم وفن کی نظر اور بصیرت پہنچنی چاہیے۔
آپ حضرات میں جو اہلِ علم ہیں وہ تو ضرور اِس قصیدےکو خریدیں اور جو لا علم ہیں اُن کو بھی یہ قصیدہ تبرّک کے طور پر اپنے پاس رکھنا چاہئے“۔
محافظ شریعت وطریقت حضرت علامہ محمد سبحان رضا خان سبحانی میاں اور حضرت علامہ ومولانا الحاج الشاہ مفتی محمداحسن رضاخاں قادری سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ کے مبارک ہاتھوں سے اس کا رسم اجرا ٢/ اکتوبر ٢٠٢١ءکی شب میں عرس رضوی کے منبر سے عمل میں آیا
فاضلِ بغداد،کنز العلما،مفکر اسلام،حضرت ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی صاحب-زیدشرفہ- سربراہ تحریک لبیک یارسول الله صلى الله عليه وسلم وبانی تحریک صراط مستقیم وشیخ الحدیث جامعہ جلالیہ رضویہ مظہر اسلام ،لاہور،(پاکستان)قصیدہ تاج الشریعہ” پر بزبان عربی تقریظ تحریرکرتے ہوے قصیدے کی معنویت اوراہمیت یوں بیان کرتےہیں
”وصلتْ الي من الهند قبل عدة ايام قصيدة رائعة كباقة الحبّ في الله، وعلماً بانّ هذه القصيدة مملوئة بحبّ شيخنا تاج الشريعة وغرامه الصادق، وهذه القصيدة لمست جودة التاليف وحسن الترتيب والفهم وسلاسة العبارةورقة الاسلوب وتنادي القرّاءجميعا هلمّوا الي روضة القدس والفكر“
ترجمہ: چند روزپہلے ہندوستان سے میرے پاس محبتِ الہی کے گلدستے کی مانند ایک خوبصورت قصیدہ آیا، اور یہ قصیدہ ہمارے شیخ، تاجِ الشریعہ علیہ الرحمہ کی پر خلوص محبت اوران کے سچےعشق سے لبریز ہے،اور اس قصیدے نے تصنیف کی خوبی ، ترتیب کی عمدگی ،فہم وادراک، عبارت کی سلاست، اور اسلوب کی نزاکت کو چھو لیا ہے، یہ قصیدہ تمام قارئین کودعوت حق دے رہاہے:
اے لوگوں! آو اس پاک باغیچے اور پاکیزہ فکر کی طرف –

ملک( تونس) کے انٹرنیشنل عالمی سیّاح، مفکر،مصنف ،عالمی شھرت یافتہ،عربی زبان کے مشہورمانہ استاذ الشعرا، حضرت ڈاکٹر شیخ مازن الشریف(حفظہ الله)  جوایک سنّی صحیح العقیدہ اسکالر ہیں ،بین الاقوامی مرکز برائے تصوف (تونس) کےبانی وصدر ہیں ،
عالمی صوفی پارلیمینٹ (بنگلہ دیش) کے نائب صدر ہیں، جن کو عربی ادب اور زبان میں (سوسے کالج) سے پی،ایچ،ڈی،حاصل ہے ، اس کے علاوہ درجنوں کتابوں کے مصنف ،اوربین الاقوامی درجنوں تنظیموں ،اکیڈمیوں کے صدر اور بانی ہیں)کے پاس
ناچیز نے  قصیدة طهيرة في مدح تاج الشريعة کی پوری پی،ڈی،ایف،فائل، شیخ مازن شریف (تونس) کے پرسنل واٹسپ پر ارسال کی تو شیخ مازن الشریف (زید شرفہ)نے بڑی مسرت وشادمانی کا اظہار فرمایا،اور قصیدے کے متعلق اپنے قلبی “تاثرات” میں یوں رقم طراز ہیں: (جن “تاثرات” سے قصیدے کی اھمیت ومقبولیت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے)-
”قصيدة طيبة فيهامشاعر الحب لشيخه، وفيها بيان واضح للحق والصدق،ولقد سرّتني حاشية هذه القصيدة لمافيها ومالاتخفی من معلومات هامّةومنافع جليلة“
ترجمہ: پاکیزہ قصیدہ جسمیں محبت کے جذبات ہیں موصوف کےاپنے شیخ کے لیے،اس میں حقانیت وصداقت کاروشن بیان ہے،اور اس قصیدے کے عربی حاشیہ کے اندر جو اسرار ورموز ہیں ان کو پڑھکر بڑی خوشی حاصل ہوئی، اورحاشیہ میں جواہم معلومات اور پرتعیش فوائد ہیں، وہ اھل علم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

”قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة“ کی وجہ تسمیہ

”طهيرة“ بروزن فَعِیْلة صیغہ مبالغہ ہے- جس کا معنی آتا یے: پاک- صاف، ستھرا،غیر آلود، نیک ،شریف-
جیساکہ”معجم العرب“ میں ہے:
”طَهِيرٌ:صِيغَةُ فَعِيل لِلْمُبَالَغَةِ. یقال:”رَجُلٌ طَهِيرٌ” اي:طَاهِرٌ“، (٧)
اس تفصیل کے مطابق قصيدة طهيرةکامعنی ہےایک پاک وصاف قصیدہ بایں سبب اس کانام :قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة
رکھا گیا۔
کیونکہ یہ قصیدہ کوئی درباری قصیدہ نہیں ہے،
جیساکہ زمانہ قدیم میں حصول زر یاکسی حصول منصب کے لیے قلمبند کیے جاتے تھے-
در اصل قدیم زمانے میں سلاطین کےدرباروں سے وابستہ شعراخاص خاص مواقع پر بادشاہوں کی شان وشوکت میں قصائد لکھاکرتے تھے، اوراپنےممدوح کی موجودگی میں پڑھاکرتے تھے،یا کسی کےتوسط سے اپنے ممدوح کی خدمت میں پیش کرتےتھے،اوردرباری شعرا کوخوب انعام و اکرام،عطیات و تحائف سے نوازے جاتاتھا۔
لیکن یہ ”قصیدہ تاج الشریعہ“،مذکورہ قصائدکے برعکس ہے،
یہ شیخ مکرم،ممدوح معظّم ،مرشدبرحق(قدس سرہ العزیز) کےبعد وصال آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھا گیاہے ،اور اپنے شیخ کےفیوض وبرکات سے مستفیض ہو نے کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔
جس کااظہار قصیدے کے ان تین اشعار میں یوں کیا گیا ہے 

(١٩٤)وَلَمْ اُرِدْ بِهَا صِيْتاً بِهَا☆ وَلَا غِنًي مِنْ عَسْجَدٖ

ترجمہ:
اور میں اپنے اس قصیدے سے کسی دنیوی شہرت،ہیرے وجواہرات کاارادہ نہیں کیا-

(١٩٥)اِلَّا اَشَدتُّ بِذِكْرِهٖ ☆ طَلَباً فُيُوْضَ الْمَوْرِدٖ

ترجمہ:
لیکن میں نےاس چشمہ سخاوت سےفیض حاصل کرنے کے لئے خراج تحسین گزاراہے۔

(١٩٦)وَلاَِنْ اُقَدِّمَ اُلْفَةً☆ فِي الْقَلْبِ لِلْمُتَجَلِّدٖ

ترجمہ:
اور صبرواستقامت کےجبل شامخ،مرشد برحق کی بارگاہ میں ایک قلبی عقیدت پیش کی ہے۔

قصیدہ تاج الشریعہ کاموضوعاتی جائزہ

اس قصیدے کامقصدِحقیقی مرشد برحق،حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی مدح وستائش ہے، یہی وجہ ہے کہ اس قصیدے میں حضور تاج الشریعہ -رحمہ الله- کے محاسن و کمالات، فضائل وخصائص ،علوم وفنون،خدماتِ دین،ردِّ صلحکلیت،مواعظ حسنہ،احوال جنازہ کوفصل در فصل خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے-جیسا کہ قصیدے کےنام: (قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة) سے بھی آشکارا ہے- لیکن اس مقصدِ حقیقی کے ماتحت ضمناً پہلو بہ پہلو، درجہ بدرجہ،ممدوح مکرم کے آباءواجداد کا بھی تذکرہ جمیل کیا گیا ہے،قصیدے کے موضوعات بظاہر مختلف نظر آتے ہیں،لیکن حقیقت کی روسے اگر دیکھاے تو یہ عقیدت ومحبت کاایک حسین استعارہ ہیں،سلسلہ طریقت کاایک روحانی تسلسل ہے،جس نے اختلاف کو اتحاد کی شکل عطا کی ہے۔

(الفصل الاول في الصبابة)

اس فصل میں پہلےشعر:

”اَبَكَي بِذِكْرِ البَاعِدٖ☆ اَوْوَمْضَةٌ فِي الْمَهْجَدٖ-“
سے لیکر
دسوے شعر:
”لاَيَنْبَغِيْ لِمُلِّومٍ☆اَنْ لَامَنِيْ بِالْمَائِدٖ“
تک ”تشبیب“ کے اشعار ہیں۔
تشبیب میں اشعار بظاہر غیرمربوط نظرآتے ہیں ،لیکن اپنی ہیئت وساخت میں مربوط ہوتےہیں اسطرح کہ ان میں اتحاد ہوتا ہے
اورگیارہوے شعر۔

”آهاً عَلَي نَفْسٍ عَصَتْ☆اِسْتَغْرَقَتْ بِمَكَائِدٖ“
سے لیکر بیسوے
شعر:
”حَقّاًتُمَلْمِلُ كُلَّ يَوْ☆مٍ فُرْقَةٌ كَالْفَاقِدٖ“ تک
”گریز“
کے اشعار ہیں۔
گریز کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ تشبیب کے بعد ممدوح کا ذکر نہایت ہی فطری اور موزوں طریقے سے کیا جائے یعنی بیان میں ایک فطری مناسبت، تسلسل اور ربط وضبط قائم رہے۔

(الفصل الثاني في مدح تاج الشريعة)
اس دوسری فصل کے
اکیسوے شعر
”هَا اَخْتَرُ الَّذْيْ لَهٗ☆ عِلْمُ السّنَا لَمْ يُنْفَدٖ“
سے لیکر اس چھتیسوے شعر

”رَضَعَ الْمَعَارِفَ فِيْ صِبَا☆حَتّٰي رَبَا بِالْمَاجِدٖ“
تک
حضور تاج الشریعہ (قدس سرہ العزیز) کی مدح وستائش ہے۔
اس فصل کےاندر (١٥) اشعار میں تواتروتسلسل کے ساتھ ممدوح مکرم، مرشد برحق کاعلمی مقام،آپ کی نشونما،آپ کی آفاقی شہرت،متانت وقار ،صبرو استقامت ،تقوی وطہارت،شان و شوکت ،خوش اخلاقی ،نرم خوئی،علماے معاصرین کے درمیان آپ کاانفرادی مقام،اورآپ کی نمایا شان کوبیان کیاگیاہے۔
مثلاً:(١)

آپ آفاقی شہرت کے حامل تھے(شعر:٢٤)
(٢)

آپ ایسے عالمِ ربّانی تھے،جن کی بارگاہ میں سربرآوردہ علمانے اپنی گردنیں خم کیں- (شعر:٢٧)
(٣)

آپ ایسے تابناک تارہ تھے، جس کی روشنی سے بہت سےلوگوں نے رشدو ہدایت کی روشنی حاصل کی-(شعر:٢٨)
(٤)

اس روے زمین پرلوگوں نے مختلف علوم وفنون میں مہارت تامّہ حاصل کر نے والےبے شمارعلما دیکھے- (شعر: ٢٩)
(٥)

لیکن ان کا ثانی دروِ حاضر میں نہیں پایاگیا- (شعر:٣٠)
(٦)

آپ کے چشمہ ہاے
علوم وفنون تسلسل کے ساتھ آج بھی ہر تشنہ کے لیے رواں ہیں- (شعر:٣٣)

(الفصل الثالث فی مدح الامام احمد رضا القادری)

اس تیسری فصل میں ممدوح مکرم ،حضور تاج الشریعہ کے پردادا،اعلی حضرت،عظیم البرکت ،امام عشق ومحبت ،امامِ اہلسنت،الحاج الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی (قدس سرہما العزیز) کی مدح وستائش ہے- واضح رہے کہ قصیدے میں ممدوح مکرم کے آباءاجداد کا ذکر جمیل بطور جملہ معترضہ ہے۔
اشعار کی مناسبت کے ساتھ جیساکہ مندرجہ ذیل شعرممدوحِ محتشم کی نشونما کے متعلق ہے۔

”رَضَعَ الْمَعَارِفَ فِيْ صِبَا☆حَتّٰي رَبَا بِالْمَاجِدٖ“
یعنی حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے معارفِ حق کو گھٹّی میں پیا،یہاں تک کہ نشونما اپنے جدّ امجد (پردادا) کے مسلکِ حق پر گامزن ہوتے ہوے پائی۔
اب سوال پیدا ہواکہ ممدوح معظّم کے پردادا کون ہیں ؟ جن کےمسلکِ حق پر گامزن ہوتے ہوتے ہوئے ممدوح نے تربیت حسنہ پائی-
اس کے جواب میں ١٢/ اشعار ہیں جن میں ممدوح مکرم کے پردادا، امام اہلسنت کا تعارف اور محاسن وکمالات کو بطورجملہ مترضہ بیان کیا گیاہے- اس تعارفِ ”جدِّ امجد“سے قصیدے کے موضوعات میں کوئی اختلاف لازم نہیں آتا ہے، بلکہ یہ ایک روحانی تسلسل ہے- (كما لا يخفي علي من له ادني الإلمام بهذا الفن)
پس اس فصل میں کل ١٢/ اشعار ہیں- جن میں امام اہلسنت (قدس سرہ العزیز) کی جودو سخا،آپ کے علوم وفنون ،آپ کی تصنیفات ،آپ کا وھبی کمال،آپ کا تبحر علم، آپ کی حق گوئی ،حق بیانی اور آپ کے فضائل وکمالات،کو مندرجہ ذیل اشعار میں کنایۃ بیان کیا گیا ہے۔

(١)

امام اہلسنت نبی کریم صلی الله عليه وسلم کے بحر سخاوت کا ایک بیش بہا موتی ہیں- (شعر: ٣٨)
(٢)

آپ علم وعرفان کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک سمندر ہیں- (شعر:٤٢)
(٣)

آپ کا (نعتیہ دیوان) حدائق بخشش محبتِ رسول کا ایک چشمہ ہے- شعر:(٤٤)
(٤)

”فتاوی رضویہ“ آپ کے قلم کا ایک علمی شاہکار ہے- (شعر: ٤٥)
(٥)

علمائے کبار نے آپ کی قدم بوسی آپ کےتعمّق علم اور اصابت راے کی بنیا پرکی -(شعر ٤٦)

( الفصل الرابع في ذكر المدرسة ”منظر اسلام“)

تیسری فصل کے بعد اس چوتھی فصل میں مدرسہ ”منظر اسلام“ کا ذکر جمیل کیاگیا ہے -کیونکہ یہ مدرسہ ”منظر اسلام“
امام اہلسنت کی ایک عظیم یاد گار ہے-جس کاقیام آپ کے ہی دستِ مبارک سے ١٩٠٤ءکو عمل میں آیا۔ بلاشبہ یہ ادارہ اپنے روزِ قیام سے ہی ناقابل فراموش عالمی سطح پر دین کی بے لوث خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس ادارے کے فارغ التحصیل علما، مشائخ عالم اسلام کے ہر خطے کو اپنے علم و عمل کی خوشبو سے معطر کرہے ہیں۔ پس اسی مناسبت کے تحت یہاں منظر اسلام کا ذکر کیاگیاہے-۔
تو اس فصل میں ”منظر اسلام“ کی دینی خدمات،عقائد صحیحہ کی ترجمانی، اور اس کے دیدہ زیب مناظرکو بیان کیا گیا ہے۔

(١)

اے منظراسلام! تو ہمیشہ سدابہار رہے- (شعر:٤٩)
(٢)

منظر اسلام نے ہر دور میں بے شمار علما،فضلا،محدّثین پیدا کیے( شعر: ٥٠)
(٣)

مرشد برحق حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اسی ”منظراسلام“ کے فارغ التحصیل ہیں-(شعر: ٥١)
(٣)

یہ منظر اسلام حق کا بول بالا اور صحیح عقائد کی ترجمانی کررہا ہے- (شعر:٥٢)
(٤)

یہ ”منظر اسلام“ جنت میں داخل ہونے کا ایک زینہ ہے- (شعر:٥٤)
(٥)

”منظر اسلام“ کے تمام تشنگانِ علوم وفنون ہمیشہ ہمیش سیراب ہوتے رہیں-(شعر:٥٦

(الفصل الخامس فی مدح حجة الاسلام)

اس پانچویں فصل میں ممدوح مکرّم کے دادا جان،حجۃ الاسلام ،الحاج الشاہ حضرت حامدرضا خاں علیہ الرحمہ والرضوان کی عظمت وفضیلت میں ١٧/ اشعار نظم کیے گیے ہیں-اس فصل میں آپ کی تمام علوم وفنون میں یکتائی، انقلاب برپاکرنے والی آپ کی مشہور تصانیف،آپ کی نرم خوئی،آپ کی جودو سخا،آپ کی رشدو ہدایت اور فضائل ومراتب کو نظم کی صورت پرویاگیاہے۔
یہ اشعار بھی بطور جملہ معترضہ نظم کیے گیے ہیں – جوبظاہر مختلف نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً متّحداور متناسب ہیں- کما لا یخفی۔

(١)

حجۃ الاسلام اپنے والدِگرامی کے مظہر حقیقی اور سچّے جانشین تھے- (شعر:٥٨)
(٢)

آپ تمام علوم وفنون میں یکتاے زمانہ تھے- (شعر: ٦٣)
(٣)

آپ عربی ادب میں اپنے دورکے امام مبرّد تھے- (شعر٦٤)
(٤)

آپ کی شہرہ آفاق کتاب: ”الصارم الربّانی علی اسراف القادیانی“ جب طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئی توغلام احمد قادیانی کی کھوپڑی بھڑک اٹھی-(شعر: ٦٥)
(٥)

آپ جب میدانِ مناظرہ میں آےتو جارح ابو الکلام آزاد مارے خوف کے فرار ہوگیا-(شعر: ٦٦)
(٦)

آپ کے رخِ زیبا کے حسن وجمال کو دیکھ کر نہ جانے کتنے کافر کلمہ پڑھ کر مشرف باسلام ہوے-(شعر: ٦٧)
(٧)

آپ حسن اخلاق کی چاندنی اور بدرِ شباب تھے- (شعر:٦٩)
(٨)

حجۃ الاسلام رشدو ہدایت کا خزانہ اور جودو سخاوت کی بارش تھے- (شعر:٧١)

(الفصل السادس في مدح الشيخ المفتي الاعظم بالهند)

یہ چھٹی (فصل) ممدوحِِ معظّم کے ناناجان،مرجع العلماو الفقہا، سیدی حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفی رضا خاں صاحب قبلہ (نورالله مرقدہ) کی مدح میں ہے،اس فصل میں مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے محاسن وکمالات،مراتب و دراجات پر اشارۃ روشنی ڈالی گئی ہے۔
اب ہم یہاں کچھ اشعار کاماحصل پیش کرہے ہیں
(١)

حضور مفتی اعظم ہند کا قلم شمشیربراں تھا- (شعر:٧٦)
(٢)

آپ کا جو محبِّ صادق ہے،وہ اس وقت تابناک ستارہ یے ( شعر: ٧٨)
(٣)

آپ کا جومخالف ہواوہ اس دنیا میں گمنام ہوا- (شعر:٧٩)
(٣)

آپ نے اپنے قلم سے اھل نجد کی گردنیں کاٹ کررکھدیں( شعر:٨٠)
(٤)

اے وہ ذات جس نے بدعت کا قلع قمع کیا! اے وہ ذات جس نے ظلمت وتاریکی سے لوگوں کے ایمان وعقیدے کی حفاظت کی! (شعر: ٨١)
(٥)

اس پیکر شجاعت سے کتنے منکران حق لرزہ براندام تھے (شعر:٨٢)
(٦)

آپ نے ”طرد الشیطان عن سبیل الرحمن“ کتاب تصنیف فرماکر نہایت مشکل ترین ایک شرعی مسئلہ کا حل فرمایا-(شعر: ٨٣)
(٦)

آپ علوم وفنون اور جاے قصد میں کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے- (شعر:٨٤)
(٧)

اپنے والدِگرامی کے علوم وفنون کے سچے جانشین اور اپنے مرشدِ برحق احمدِ نوری کے نور تھے- (شعر: ٨٥)

(الفصل السابع فی مدح المفسر الاعظم بالهند)

اس ساتویں (فصل) میں ممدوحِ محتشم کے والد گرامی، نبیرۂ اعلی حضرت ،مفسر اعظم ہند، حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم رضا خان قادری علیہ الرحمہ- جو حقیقتا ًزبان رضا تھے وہ رضا کے علم و فضل اور زہد و تقوی ٰ کے وارث و امین تھے ان کی نیکی ان کے صبر شکر گزاری اور بے لوث دینی خدمات ہی کا ثمرہ ہے کہ آپ کی اولاد خوش وخرم اور شاد وآباد ہے وہ حقیقی معنی میں مبلغ اسلام عالم باعمل سچے نائب رسول اور اصلیت میں پیر طریقت اور مرشد برحق تھے وہ جو بھی کہتے اور بولتے اس پر عمل کر تےانہوں نے اپنا اثاثہ اپنے گھر کے زیورات ،اپنا مال وزر ،اپنا لہو و پسینہ صرف اورصرف غلبہ اسلام وسنیت اور تبلیغ دین ومسلک کی خاطر قربان کردیا تھا۔
اس ساتویں فصل میں حضرت مفسر اعظم ہند کی حسن وخوبی ،شان وشوکت،آپ کا فضل وکمال،آپ کا جودو نوال، پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل میں کچھ اشعار کا ماحصل پییش کیا جارہا ہے۔

(١)

آپ گستاخانِ رسول کے لیے ( اپنے داداجان امامِ اہلسنت ) کی تلوارتھے ،ہندوستانی تلوار کی طرح- (شعر: ٩٩)

(٢)

آپ فضل وکمال، جو دو نوال اورمنفعت کے ابرباراں تھے۔(١٠١)

(٣)

آپ دینِ حق پر مضبوط چٹان کی طرح ثابت قدم تھے۔ (شعر: ١٠٢)

(٤)

آپ تقوی و پرہیزگاری کا ایک بے مثال نمونہ تھے۔(شعر: ١٠٣)
(٥)

آپ علم تفسیر میں اھل علم کا مرجع تھے- (شعر: ١٠٥)
(٦)

آپ جودو سخاوت میں حاتم طائی تھے-( شعر:١٠٦)
(٧)

آپ کی پوری زندگی دینداری اورترک دنیا سے لبریز تھی (شعر:١١٠)

(الفصل الثامن في مدح الشيخ ريحان الملة)

یہ آٹھویں (فصل) ممدوح مکرّم کے حقیقی برادر اکبر،گلشن رضویہ کے مہکتے پھول، استاذ العلما، سند الفضلا، ریحانِ ملت، حضرت علامہ مولانا محمد ریحان رضا خان قادری بریلوی (رحمه الله)کے علمی کمالات میں ہے۔

اس فصل میں
آپ کی فکروتدبّر،علم وحکمت، مسلکِ اعلی حضرت کی نشرو اشاعت،اور آپ کے دینی اور ملّی یاد گار کارناموں کوبیان کیا گیا ہے۔
(١)

وہ جنت کا ایک ایسا شگفتہ پھول تھا ،جس نے دنیا میں دینِ حق کی عمدہ ترین خوشبو پھیلائی- (شعر:١١٩)
(٢)

آپ ثابت قدم رہ کر اھل بدعت کا مقابلہ کرتے رہے- (شعر: ١٢٣)
(٣)

آپ فکر و تدبر کے بادشاہ ،علم وحکمت کے آسمان تھے- (شعر:١٢٧).
(٤)

آپ مختلف علوم وفنون کے ایک جبلِ شامخ تھے- (شعر:١٢٨)
(٥)

آپ کی جودو سخاوت ابرباراں کی طرح تھی-آپ کی گھن گرج گرجنے والے بادل کی طرح تھی- (شعر:١٣٠)

(الفصل التاسع في ذكر علوم الشيخ تاج الشريعة)

تشبیب وگریز کے بعدمدح سرائی کا آغاز ہوا،جو قصیدے کا غرض اساسی ہے-حضور تاج الشریعہ (قدس سرہ العزیز) کی مدح و ستائش کی ضمن میں پہلو بہ پہلو،درجہ بدرجہ ممدوح معظّم کےآباءو اجداد کی ستائشیں بطور جملہ معترضہ کی گئیں- جن سے قصیدے کے موضوعات میں کوئی اختلاف لازم نہیں آتا ہے- گویا یہ تو ایک خاندانی سلسلہ کا باہمی ربط وضبط ہے- ایک روحانی تسلسل ہے،جوقصیدے میں موضوعاتی اعتبار سے بظاہر مختلف نظر آتا ہےلیکن باطناً متحدہے۔
اس فصل میں ممدوح مکرّم کے علوم وفنون کوالگ سےایک فصل میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
مثلاً :
(١)

تاج الشریعہ،فخرِازہر جیسے عالمی شہرت یافتہ القاب آپ کو بسبب علمی کمالات عطاکیے گیے-شعر: (١٣٥)
(٢)

آپ نے خانہ کعبہ کے اندر مہمان نوازی کا شرف حاصل کیا(شعر:١٣٨)
(٣)

آپ اپنے علماے معاصرین فضل وکمال ،علم ومعرفت میں فوقیت لے گیے- (شعر:١٤٠)
(٤)

فنّ شاعری کی دنیا میں آپ کو ایسا عروج وکمال کاایسا دریاعطا کیا گیا جو تشنہ لبوں کے لیے ہمہ وقت موجزن رہتاتھا- (شعر:١٤١)
(٥)

آپ کو علمِ ادب میں ایک ملکہ حاصل تھا- (شعر:١٤٢)
(٦)

آپ کوعلمِ حدیث میں منفعت کے بادلوں کی طرح مہارت تامّہ حاصل تھی- (شعر:١٤٣)
(٧)

آپ کو علم تصوف میں کامل عبور حاصل تھا-(شعر: ١٤٤)
(٨)

علمِ تفسیر میں آپ یکتاے زمانہ تھے- (شعر:١٤٥)
آپ علم وعرفان کے ایک ایسے بلند وبالا پہاڑ تھے،جس پر ہر چڑھنے والا نہیں چڑھ سکتا- (شعر: ١٤٦)

(الفصل العاشر في خدمة الدين)

یہ دسویں (فصل) ممدوح مکرّم، حضور تاج الشریعہ(قدس سرہ العزیز) کی دینی خدمات
میں ہے۔
اس (فصل) کے اندر ردّ صلحکلیت میں آپ کا خصوصی امتیاز،آپ کی حق وصداقت، حق بیانی-عالمی سطح پر ”مسلک اعلی حضرت“ کی نشرواشاعت- آپ کا تصلب فی الدین،اور آپ کے مواعظ حسنہ پر بطور اختصار روشنی ڈالی گئی ہے۔

(١)

اکثر جو آپ کی مجلس وعظ آیا،وہ اپنے گناہوں سے تائب ہوکر لوٹا- (شعر:١٤٧)
(٢)

آپ نے (اعتقاد وعمل کے منافق) صلحکلّیوں کا ردّ کرنے میں خصوصی امتیاز حاصل کیا (شعر: ١٤٩)
(٣)

طاہر القادری پاکستانی کا کفرو ارتداد عوام کے درمیان ظاہر کرنے میں آپ نےاوّلیت حاصل کی- (شعر:١٥٠)

(٤)

آپ پوری زندگی مخالفین ومعاندین کاردِّ بلیغ کرتے رہے- (شعر:١٥١)

(الفصل الحادي عشر في الردَ علی اھل البدعة)

دسویں فصل صلحلکلّیوں کاردّ اور مخالفین ومعاندین کی مذمت میں تھی- مندرجہ ذیل:١١/ ویں فصل میں،تمام فرقہاے باطلہ کے عقائد کفریہ اجاگر کیے گیے ہیں-یعنی بدعقیدے ،دیوبندی ،وہابی اور اھل حدیث کے گمراہ کن عقائد کی تردید کی گئی ہے،اور ان کے تمام اعمال حسنہ،نیکیاں ،اورراد وظائف کے بطلان پر قران وحدیث کی روشنی میں قوی دلائل پیش کیے گیے ہیں۔
دراصل یہ ١١/ ویں)(فصل) بھی حضور تاج الشریعہ کی دینی خدمات کے تحت آتی ہے- کیونکہ جہاں آپ نے صلحلکلیوں کاردّ بلیغ کرنے میں ایک انفرادی مقام حاصل کیا،
وہی آپ نے دیوبندیوں، وہابیوں ،اھل حدیثوں کابھی ردّ کرنے میں ایک کلیدی کردار کیا – یہاں بطور مثال کچھ اشعار کا ترجمہ بطور مثال پیش کیاجارہاہے۔

(١)

آپ شمشیرِ بے نیام ہوکر تمام فرقہاے باطلہ کا ردّ فرماتے رہے- (شعر:١٥٣)
(٢)

فرقہاے باطلہ کے ساتھ خلط ملط،ربط وضبط،زہریلے سیاہ سانپ کے ڈسنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے- (شعر: ١٥٦)
(٣)

فرقہاے باطلہ کے پاس ایمان کی حلاوت و چاشنی تو بلکل نہیں ہے بلکہ یہ تو بنجر زمین سے بھی گیے گزرے ہیں- (شعر:١٥٧)
( ٤)

الله تعالیٰ فرقہ وہابیہ کی کوئی نیکی قبول نہیں فرماتاہے،(شعر:١٦١)
(٥)

بدعقیدوں کے لیے اس دنیا میں ذلت ورسوائی ،اوربروز حشر دردناک عذاب ہے،(شعر:١٦٣)
(٦)

اھل بدعت سے بغض وعناد کا اظہار نیک بختوں کی علامت ہے- (شعر:١٦٥)

(الفصل الثانی عشر فی ذکر اھل السنة والجماعة)

اس بارہویں (فصل) میں اہل سنت وجماعت کا اختصارا ذکر ہے،اس میں اہل سنت وجماعت کی تایید و نصرت اور حق و صداقت کو بیان کیا ہے- واضح رہے اس فصل کا تعلق بھی ممدوح محتشم کی دینی خدمات سے ہے۔
جیسے 
(١)

جماعت اہلسنت کے پیروکار ،مشائخ عظام بروز قیامت سب خوشوار جنت میں یونگے- (شعر:١٦٨)

(۲)

یہی جماعتِ اہلسنت حق پرہے،جو اس سے ہٹا وہ جہنم میں جائیگا- (شعر: ١٦٧)
(۳)

جماعت اہلسنت کے پیروکار ،مشائخ عظام بروز قیامت سب خوشوار جنت میں یونگے- (شعر:١٦٨)

(الفصل الثالث عشر في رثاء الشيخ تاج الشريعة)

یہ تیرہویں (فصل) ”رثا“ کے اشعار پر مشتمل ہے- یعنی ممدوح محتشم کی خوبیاں ،اوصاف حمیدہ،خصائص ومحاسن،فضائل وبرکات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حزن وملال رنج وغم کا اظہار کیا گیا ہے۔
مندرجہ ذیل فصل میں ”رثا“ کے کل ١٨/ اشعار ہیں: یہاں بطور نمونہ کچھ اشعار کاترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
(١)

آپ کے وصال پرملال پر یہ آسمان رویاتھااورآنے والی مخلوق روئی تھی (شعر:١٧٢)
(٢)

آپ کے ارتحال کے وقت ہوش وحواس جاتے رہے،رگوں کامنجمد ہوگیا تھا (شعر:١٧٣)
(٣)

آپ کے جنازے میں ایک انسانی سیلاب امڈآیاتھا- (شعر:١٧٧)
( ٤)

آپ کے جنازے نے حق کا فیصلہ کیا (شعر:١٧٩)
(٥)

وہ کون ہے؟ جواب ان کانظیر لاےگا،دینداری ،ثابت قدمی،ہدایت و بزرگی ،تقوی وپرہیزگار میں –
(٦)

جس کے دل میں آپ کی طرف سے بغض وحسد،کینہ پروری ہے،تو بلاشبہ وہ مصائب وآلام میں گرفتاہے (شعر:١٨٧)

(الفصل الرابع عشر في العظات والنصائح)

یہ چودہویں (فصل) وعظ و نصیحت، رشدو ہدایت ،اعمال حسنہ کی ترغیب پر مشتمل ہے۔
یہ (فصل) بھی ممدوح مکرّم سے ہی متعلق ہےمثلاً
(١)

مرشدِ برحق کے عمل وکردار اختیار کر، کیونکہ ان کے اعمال و اقوال ایسے مستحسن ہیں ،جو قابلِ عمل ہیں -(شعر: ١٩٠)
( ٢)

مرشد برحق علیہ الرحمہ اپنے قول وفعل میں پہاڑ کی طرح مضبوط ثابت قدم ،حق پسند تھے (شعر :١٩٣)

(الفصل الخامس عشر في حسن الطلب)

اس فصل میں قصیدہ نگاری کامقصدِ حقیقی مذکورہے۔
جیسے
(١)

اس قصیدے سے کسی دنیوی شہرت ودولت کا قصد نہیں کیا گیا (شعر:١٩٤)
(٢)

لیکن اس چشمہ سخاوت سےفیض حاصل کرنے کے لئے خراج تحسین گزاراہے،(شعر: ١٩٥)
(٣)

اپنے مرشد برحق کی بارگاہ میں ایک قلبی عقیدت پیش کی ہے (شعر: ١٩٦)

(الفصل السادس عشر في الدعاء)

اس فصل میں شعر:٢٠١/ سے لیکر شعر:٢٠٨/ تک اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوے،ابدی دشمن شیطان کے مکروفریب سے بچنے ،اپنے والدین کریمین،اساتذۂ کرام کی مغفرت اپنے بزرگوں سے ہمیشہ وفاداری کی دعائیں مانگی ہیں۔
آخر میں خاص طورسےاپنے لیے
فرقہاے باطلہ کی صحبتوں سے ہمیشہ دور رہنے کی اپنے رب سےدعا مانگی ہے۔

(الفصل السابع عشر في الحمد والثناء والصلاة )

اس سترہویں اور آخری (فصل)
میں شعر:٢٠٩ سے لیکر شعر:٢١١) تک نبی کریم صلی الله عليه وسلم اورآپ کے تمام صحابہ کرام پر درود وسلام کےساتھ
(قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة)اختتام پذیر ہوجاتاہے۔

”قصیدہ تاج الشریعہ“ کاعروضی جائزہ

یہ ”قصیدہ تاج الشریعہ“بحر کامل مجزو میں ہے، جس کےچار تفعیلات ہیں۔
دوپہلی شطر میں اور دو دوسری شطر میں۔
جیسے:مُتَفَاعِلُنْ مُتَفَاعِلُنْ☆ مُتَفَاعِلُنْ مُتَفَاعِلُنْ
جیساکہ علم عروض کی کتاب ”بحور الشعر“ میں ہے”
وعندما تحذف تفعيلة واحدة من كل شطر أي يصبح البيت أربع تفعيلات : تفعيلتان في كل شطر يكون هو مجزوء الكامل“ (٨)

ترجمہ: جب ہر شطر سے ایک تفعیلہ حذف کردیا جاے،تو بیت میں چار تفعیلات رہے جائیں گے ، یعنی ہرشطر میں دودو تفعیلےرہے جائیں گے،تووہ بحر کامل مجزوہے۔
بحرکامل مجزو کا ایک صحیح عروض اور چار ضربیں ہیں۔
یہ  قصیدہ تاج الشریعہ ضرب اوّل میں ہے،اس کا عروض اور ضرب دونوں صحیح ہیں۔

جیساکہ “التلخيصات الشافعية في العروض والقافية“ میں ہے۔

بحرمجزوء الكامل، وهو ياتي بعروض صحيحة دائماً واربعة أضرب:
١-صحيح
٢- مرفل
٣- مذيل
٤-مقطوع (٩)

واضح رہے کہ مصرع اول کے آخری تفعیلہ کو عروض اور مصرع ثانی کے آخری تفعیلہ کو ضرب کہا جاتا ہے۔
”علم العروض والقافیة“ میں ہے

العَروض :هو آخر تفعيلة في في المصراع الأول. وقد سميت عَروضا ؛ لأنها تقع في وسط البيت۔
الضرب :
هوآخر تفعيلة في المصراع الثاني ، أو العجز ) وسمي ضربا لأن البيت الأول من القصيدة إذا بني على نوع من الضرب (١٠)
ترجمہ:
مصرع اول کے آخری تفعیلہ کو عروض کہاجاتا ہے-اور عروض کو عروض اسلیے کہاجاتا ہےکہ وہ شعر کے درمیان میں واقع ہوتا یے-اور مصرع ثانی کے آخری تفعیلہ کو ضرب کہا جاتا ہے،
اور اس کو ضرب اسلیے کہا جاتا یے، کہ قصیدے کاپہلا شعر ضرب کی جس نوع پر ہوگا تو پور قصیدہ اسی نوع پرہوگا
اس بحر میں زحاف اضمار،وقص،اور خزل ہوتا ہے:
اسلیے پہلے ان سب کی تعریفات کرنا مناسب ہے، تاکہ ابیات کی تقطیع سمجھنے میں کوئی دشواری درپیش نہ آے-

زحاف
علماء عروض نے ﺯﺣﺎﻑ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ”ﻋﻠﻢ ﻋﺮﻭﺽ ﻣﯿﮟ ﺯﺣﺎﻑ اس تغیر کانام ہے ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺑﺤﺮ ﮐﮯ ﺭﮐﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﯿﻦ ﻗﻮﺍﻋﺪ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﻻیاجاتا ہے-
ﺍِﺿْﻤَﺎْﺭ:
ﺑﺮﻭﺯﻥ ﺍﺭﺷﺎﺩ۔ ﺑﻤﻌﻨﯽ ﻻﻏﺮ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﯾﮧ ﺗﻐﯿﺮ ﺳﺒﺐ ﺛﻘﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﺮﻑ ﺩﻭﻡ ﻣﺘﺤﺮﮎ ﮐﻮ ﺳﺎﮐﻦ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﻋﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﮨﺮ ﺭﮐﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺻﺮﻑ ﻣﺘﻔﺎﻋﻠﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﮩﺖ ﺳﮯ ﺗﺎﺳﺎﮐﻦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣُﺴْﺘَﻔْﻌِﻠُﻦ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﻣﻀﻤﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻭﻗَﺺْ:
ﺑﺮﻭﺯﻥ ﺷﻤﺲ۔ ﺑﻤﻌﻨﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﻮﮌﻧﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﺘﻔﺎﻋﻠﻦ ﮐﯽ ﺗﺎﮔﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ اس کا تفعیلہ (ﻣﻔﺎﻋﻠﻦ) ﮨﻮ ﺟﺎتاﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﻮﻗﻮﺹ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺧَﺰْﻝ:
ﺑﺮﻭﺯﻥ ﻋﺪﻝ۔ ﺑﻤﻌﻨﯽ ﺑﺮﯾﺪﻥ ﻣَﺘَﻔَﺎﻋِﻠُﻦْ ﮐﺎ ﻣُﻔْﺘَﻌِﻠُﻦْ ﻭ ﺍﺿﻤﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻃﮯ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺨﺰﻭﻝ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

اس تفصیل کے بعد اب ہم یہاں ”قصیدہ تاج الشریعہ“ کے مطلع کی تقطیع پیش کررہے ہیں

اَبَــكَــــيْ بِــــذِكْـــرِ البَـــاعِــــدٖ
اَوْوَمْــضَـــةٌ فِــيْ الْــمَــهْــجَــد

اَبَــكَــــيْ بِــــذِكْ / رِ البَـــاعِــــديْ
/ / / ه. / / ه
مُــتَــفَـــا/ عِـلُـنْ

/ / / ه. / / ه
مُــتْــفَـــا/ عِـلُـنْ

فَـبَـكَـتْ عُــيُـونـكَ خَــاطِـرٌ
لاَيَـــسْـــتَـــفِــيْـقُ كَـــوَاجِــد

فَـبَـكَـتْ عُــيُـو/نـكَ خَــاطِـرُنْ

/ / / ه. / / ه
مُــتَــفَـــا/ عِـلُـنْ / / / ه. / / ه
مُــتَــفَـــا/ عِـلُـنْ

لاَيَـــسْـــتَـــفِــيْـ/ قُ كَـــوَاجِــدِيْ
/ / / ه. / / ه
مُــتــفَـــا/ عِـلُـنْ / / / ه. / / ه
مُــتَــفَـــا/ عِـلُـنْ

وَاجْــعَــلْـــهُ طَــائِــعَ اَخْــتَــرٍ
مــَـادَامَ فِــــيْ ذَا الْــــقَــرْدَديْ

وَاجْــعَــلْـــهُ طَــا/ئِــعَ اَخْــتَــرٍ
/ / / ه. / / ه
مُــتْــفَـــا/ عِـلُـنْ / / / ه. / / ه
مُــتَــفَـــا/ عِـلُـنْ
مــَـادَامَ فِــــيْ/ ذَا الْــــقَـــرْدَديْ

/ / / ه. / / ه
مُــتْــفَـــا/ عِـلُـنْ / / / ه. / / ه
مُــتْــفَـــا/ عِـلُـنْ
_____________

اس بحر کامل مجزو میں اصل تفعیلہ ”ﻣﺘَﻔَﺎﻋِﻠُﻦْ“ ہے لیکن زحاف اضمارکی صورت میں ۔ ﺗﺎ کلمہ کو ﺳﺎﮐﻦ کرنے کی شکل میں ”ﻣُﺴْﺘَﻔْﻌِﻠُﻦْ“ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ،
زحافِ وقص کی صورت میں ”ﻣﺘَﻔَﺎﻋِﻠُﻦْ“ ﮐﯽ ﺗﺎ ﮔﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ اس کا تفعیلہ (ﻣُﻔَﺎﻋِﻠُﻦْ) ﮨﻮ ﺟﺎتاﮨﮯ۔
زحافِ خزل کی صورت میں
ﻣَﺘَﻔَﺎﻋِﻠُﻦْ ﮐﺎ ﻣُﻔْﺘَﻌِﻠُﻦْ ہوجاتا ہے یہ ﺍﺿﻤﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻃﮯ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺨﺰﻭﻝ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
(١١)

مصادرومراجع

(١)ہندوپاک میں عربی ادب،ص: ١٤،١٥،/ تاج آفسیٹ پریس،الہ آباد۔
(٢) تحقیقاتِ امام احمد رضا،ص: ٢٠٢/ ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا، انٹرنیشنل،کراچی- (پاکستان)

( ٣)اجالا،ص: ٣/ ادارہ مسعودیہ،کراچی،(پاکستان)
(٤) لسان العرب ،دار صادر،بیروت
(٥) قصیدہ نگاری ،ص:١٢،١٣/ایجوکیشن ،بک ہاؤس،علی گڑھ،یوپی-
(٦)قصیدے کافن اور ارتقا،(قسط اول) علم کی دنیا ،فروری ٢٠٢١ء-
(٧)المعجم العرب ،دار صادر،بیروت –
(٨)اللغة العربية وبحور الشعر، ص:٣/ مکتبہ نور-
(٩)التلخيصات الشافعية في العروض والثقافية، درس: ١٢/ المکتبة الشاملة، مصر-

(١٠)علم العروض والقافية،ص:٨- دار النهضة العربية، بيروت –

(١١) قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة،مقدمہ ص: ٤،مؤسسة المفسرالاعظم بالهند، بريلي شريف، یوپی‫‫-

محمد طاہر القادری رضوی رامپوری
استاذ شعبۂ عربی ادب جامعہ رضویہ ”منظر اسلام “- بریلی شریف- یوپی

(قصيدة طهيرة في مدح تاج الشريعة(مقدمه

qaseedae taheera fi madhe tajusshariya muqaddama

About قاسم رضا امانتی

Check Also

ببر شیر کـو قـتل کرنے والےصحـابـی رضی اللہ تعالٰی عنہ 

‏ببر شیر کـو قـتل کرنے والےصحـابـی رضی اللہ تعالٰی عنہ   واقعہ کچھ یوں ہے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *