سوال
نیپال،امریکہ، چین و غیرہ میں جمعہ قائم کرنا نیز ادا کر نا صحیح ہے یا نہیں ؟
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب : نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ اسلامی شہر ہونا بھی شرط ہے۔
غنية المتملی میں ہے۔
واما شروط الاداء فستة أيضاً الشرط الأول المصر أو فناءه فلا يجوز في القرى عندنا وهو مذهب على بن ابي طالب و حذيفة وعطا والحسن بن أبي الحسن والنخعي و مجاهد و ابن سيرين و الثورى وسحنون خلافا للائمة الثلاثة لما روى ابن ابي شيبة عن على بن ابى طالب انه قال لا جمعة ولا تشريق ولا صلاة فطر ولا اضحى والا في جامع أو مدينة عظيمة. (غنية المتملى ص : ۵۴۹)
فقیه فقید المثال اعلیٰ حضرت رضی الله عنہ ارشاد فرماتے ہیں: “فرضیت و صحت و جواز جمعہ سب کے لئے اسلامی شہر ہونا شرط ہے،جو جگہ بستی نہیں جیسے بَن سمندر یا پہاڑ ، یا بستی ہے مگر شہر نہیں جیسے دیہات، یا شہر ہے مگر اسلامی نہیں جیسے فرانس اور روس کے بلاد، ان میں جمعہ فرض ہے نہ صحیح نہ جائز بلکہ ممنوع و باطل و گناہ ہے ۔ اس کے پڑھنے سے فرض ظہر ذمہ سے ساقط نہ ہوگا اھ۔
(فتاوی رضویہ مترجم ، ج:۸، ص: ۳۷۷، باب الجمعہ ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )
لہذا اصلِ مذہب کے مطابق جو اسلامی شہر نہ ہو وہاں جمعہ ادا کرنا صحیح نہیں بلکہ وہاں ظہر ادا کر نا فرض ہے ۔ مگر فی زمانہ نیپال ، امریکہ، چین، یورپ وغیرہ دار الحرب کے بلاد میں مسلمانوں کی مستقل رہائش ، غیر مسلم حکومت کی طرف سے جمعہ کی اجازت، نماز جمعہ کی عمومی ادائیگی اور جمعہ نہ پڑھنے کی صورت میں پیدا ہونے والے مفاسد کے پیش نظر معتمد و مستند علماء کرام نے شرعی اصولوں میں سے ازالہ فساد مظنون بظن غالب اور عموم بلوی کو بنیاد بنا کر مذہب امام مالک رضی اللہ عنہ پر عمل کرنے اور دیگر شرائط کی موجودگی میں نماز جمعہ و عیدین ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ ساتھ ہی خواص کو ظہر ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ایسا ہی “مجلس شرعی کے فیصلے ” ج:ا،ص: ۲۱، ناشر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہو گیا کہ فی زمانہ نیپال، امریکہ ، چین وغیرہ میں جمعہ قائم کرنا نیز اداکر نا صحیح ہے ۔واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبه: محمد نعيم أمجدي، بہرائچ شریف یوپی
الجواب صحيح: مفتی محمد ابرار احمد امجدی، مرکز تربیت افتاء اوجھاگنج، بستی