تشہد میں رب اجعلنی والی دعامانگنے کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بار ےمیں کہ تشہد میں حضور علیہ السلام سے کونسی دعا پڑھنا ثابت ہے جس کو علمائے کرام نے لازمی لکھا ہو؟

کیا رب اجعلنی والی دعا مانگنا ممنوع ہوگا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب الھم ھدایۃ الحق والصواب

تشہد و درود کے بعد کوئی سی بھی دعائے ماثورہ مانگنا سنت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تشہد کے بعد مختلف دعائیں پڑھنا منقول ہے ،کسی ایک دعا کو حضور علیہ السلام نے تشہد میں خاص نہ فرمایا بلکہ واضح طور پر ہر قسم کی دعامانگنے کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطافرمائی ہے۔ صحابی رسول حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورفقہائے کرام نے ہر طرح کی دعائے ماثورہ کی اجازت دی ہے اورکتب فقہ میں” رب اجعلنی”دعا کو مستحب فرمایا ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے جوقرآن سے ثابت ہے ،اسمیں اپنے اور والدین کے ساتھ تمام مسلمانوں کی مغفرت کا ذکر ہے لہذا یہ جامع دعا ہے، اسکو ممنوع کہنا جہالت ہے ۔ بہتر ہے کہ رب اجعلنی کے ساتھ کوئی ایسی دعا بھی پڑھی جائے جو حدیث پاک سے ثابت ہے جیسے ”اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ

:صحیح البخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے

”قال قلت يا رسول الله صلى الله عليه وسلم علمني دعاء ادعوا به في صلاتى قال قل اللهم اني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب الا انت فاغفر لي مغفره من عندك وارحمني انك انت الغفور الرحيم 

ترجمہ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے ایسی دعا تعلیم فرمائیے جو میں نماز میں مانگا کروں تو حضور نے فرمایا یوں کہو : اے اللہ میں نے اپنی ذات پر بہت ظلم کیا ،صرف تو ہی گناہوں کو بخش سکتا ہے ،تو اپنی طرف سے اور محض اپنے فضل و کرم سے میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما بے شک تو ہی بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے ۔

(صحیح البخاری کتاب، الاذان ابواب صفت الصلاۃ ،حدیث 834 الکتب ستة دار السلام)

صحیح مسلم میں ہے

” عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِذَا تَشَهَّدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ مِنْ أَرْبَعٍ يَقُولُ: اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ “

ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھ لے ، تو چار چیزوں کے متعلق اللہ سے پناہ طلب کرے ۔کہو:اے اللہ میں جہنم اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور حیات و موت کے فتنے اور مسیح دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔

(صحیح المسلم ، باب ما يستعاذ منه في الصلاة ،جلد1 ،صفحہ 412 ،حدیث588، دار إحياء التراث العربي،بيروت)

مقامِ دعا کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

 ای آخرھا قبل السلام للحدیث الآتی عقب ھذا یعنی نماز کے آخر میں سلام سے پہلے دعا کرتے، اس حدیث کی وجہ سے جو اس کے بعد آرہی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد3، صفحہ 20،مطبوعہ کوئٹہ)

امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ” المعجم الاوسط” میں حدیث مبارک نقل فرماتے ہیں

عن عبد اللہ بن مسعود قال: كان دعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشهد في الفريضة: اللهم إنا نسألك من الخير كله عاجله وآجله، ما علمنا منه وما لم نعلم، ونعوذ بك من الشر كله عاجله وآجله، ما علمنا منه وما لم نعلم، اللهم إنا نسألك ما سألك منه عبادك الصالحون، ونستعيذ بك مما استعاذ منه عبادك الصالحون، ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار، ربنا إننا آمنا فاغفر لنا ذنوبنا وكفر عنا سيئاتنا وتوفنا مع الأبرار، ربنا وآتنا ما وعدتنا على رسلك ولا تخزنا يوم القيامة إنك لا تخلف الميعاد ويسلم عن يمينه وعن شماله

ترجمہ:حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز میں تشہد کے بعد یہ دعائیں مانگتے تھے:اے اللہ ہم تجھ سے دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیوں کا سوال کرتےہیں،ان میں سےجوہم جانتے ہیں یا جونہیں جانتے اور تیری پناہ مانگتے ہیں دنیا اورآخرت کی تمام برائیوں سے، ان میں سےجوہم جانتے ہیں یا جونہیں جانتے،اے اللہ ہم تجھ سے وہ مانگتے ہیں جو تیرے نیک بندوں نے مانگا اورا س چیز سے تیری پناہ مانگتے ہیں،جس سے تیرے نیک بندوں نے پناہ مانگی،اے اللہ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا،اے ہمارے رب ہم مؤمن ہیں ہمارے گناہوں کو بخش دےاور ہماری برائیوں کو مٹا دے اورہمیں نیک لوگوں کے ساتھ وفات دے،اے ہمارے رب ہمیں وہ عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں سے وعدہ فرمایااور ہمیں قیامت کےدن رسوا نہ فرمانا،پھر دائیں اور بائیں جانب سلام پھیر دیتے۔

(المعجم الاوسط، جلد07،صفحہ305،رقم الحدیث7570 ،مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)

صحیح بخاری میں ہے

” ‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نَقُولُ فِي الصَّلَاةِ السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَعَدَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ إِلَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ الصَّالِحِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَالَهَا أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ صَالِحٍ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الثَّنَاءِ مَا شَاءَ“

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نماز میں یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ہم سے ایک دن فرمایا کہ اللہ خود سلام ہے اس لیے جب تم نماز میں بیٹھو تو یہ پڑھا کرو التحيات لله سے الصالحين‏‏ تک۔ اس لیے کہ جب تم یہ کہو گے تو آسمان و زمین میں موجود اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہر صالح بندے کو (یہ سلام) پہنچے گا۔ أشهد أن لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله‏.‏ اس کے بعد ثنا میں اختیار ہے جو دعا چاہو پڑھو۔

(صحیح بخاری ٫کتاب الدعوات٫ حدیث نمبر6328 الکتب الستة دارلسلام)

اس حدیث کے آخر میں واضح ارشاد ہوا کہ تشہد کے بعد جو مرضی دعا کرو۔یونہی سنن ابو داؤد اورجامع ترمذی میں ہے 

”ان عمرو بن مالك الجنبي اخبره، انه سمع فضالة بن عبيد، يقول: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يدعو في صلاته فلم يصل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ” عجل هذا “، ثم دعاه، فقال له او لغيره: ” إذا صلى احدكم فليبدا بتحميد الله والثناء عليه، ثم ليصل على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليدع بعد بما شاء “

ترجمہ:عمرو بن مالک الجنبی نے خبر دی ، انہوں نے حضرت فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز کے اندر دعا کرتے ہوئے سنا، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) نہ بھیجا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جلدی کی“، پھر آپ نے اسے بلایا، اور اس سے اور اس کے علاوہ دوسروں کو خطاب کر کے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی بھی نماز پڑھ چکے تو اسے چاہیئے کہ وہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجے، پھر اس کے بعد وہ جو چاہے دعا مانگے۔ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات عن رسول اللہ، باب ماجاء فی جامع الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، روایت 3477، جلد 2 صفحہ489، ناشر الطاف اینڈ سنز)

البحرالرائق میں ہے

”(قوله: ودعا بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس) أي بالدعاء الموجود في القرآن، ولم يردحقيقة المشابهة ؛ إذ القرآن معجز لا يشابهه شيء، ولكن أطلقها ؛ لإرادته نفس الدعاء ، لا قراء ة القرآن، مثل: ﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا ﴾﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبِنَا ﴾ ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ ﴾ ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ﴾ إلى آخر كل من الآيات، وقوله: والسنة، يجوز نصبه عطفاً على ألفاظ أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة، وهي الأدعية المأثورة، ومن أحسنها ما في صحيح مسلم: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال»، ويجوز جره عطفاً على القرآن أو ما أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة أو دعا بالسنة، وقد تقدم أن الدعاء آخرها سنة ؛ لحديث ابن مسعود: «ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به»“

ترجمہ:ان کا قول: اس نے قرآن و سنت کے الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ سے دعا کی، لوگوں کے الفاظ سے نہیں) جس کا مطلب قرآن میں موجود دعا کے ساتھ ہے، اور اس نے اس کی مشابھت کی حقیقت کا رد نہیں کیا۔ کیونکہ قرآن معجزہ ہے اور کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے، لیکن اس نے اسے بیان کیا۔ کیونکہ مقصد یہاں نفس دعا کا ہے، قرآن پڑھنا نہیں، جیسے “اے ہمارے رب، ہم سے حساب نہ لے” ، “اے ہمارے رب، ہمارے دلوں کو ٹیڑھے نہ ہونے دے” ، “اے میرے رب مجھے اور میرے والدین کے لیے بخشش فرما، “اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں بھلائی عطا فرما” ہر آیت کے آخر تک، اور اس کا یہ قول: “اور سنت” یعنی وہ دعا جو ماثورہ سے مشابہ ہو وہ مانگنا سنت ہے۔ ان میں سب سے اچھی دعا صحیح مسلم میں ہے: “اے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنہ سے، اور دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔” ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: “پھر تم میں سے کوئی ایک ایسی دعا کا انتخاب کرے جو اسے پسند ہو اور اس کے ساتھ دعا کرے۔(البحرالرائق شرح کنز الدقائق،کتاب الصلوٰۃ، جلد 1 ،صفحہ 349)

فتاوی ہندیہ میں ہے

“ويستحب أن يقول المصلي بعد ذكر الصلاة في آخر الصلاة: ‌رب ‌اجعلني ‌مقيم الصلاة ومن ذريتي ربنا وتقبل دعاء ربنا اغفر لي ولوالدي وللمؤمنين يوم يقوم الحساب”

ترجمہ: اور مستحب ہے کہ نماز پڑھنے والا نماز کے ذکر کے بعد نماز کے اخر میں کہے: ‌رب ‌اجعلني ‌مقيم الصلاة ومن ذريتي ربنا وتقبل دعاء ربنا اغفر لی ولوالدی و للمومنین یوم یقوم الحساب ۔(فتاویٰ ہندیہ الفصل الثالث في سنن الصلاة وآدابها وكيفيتها، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 76، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

بہارِ شریعت میں ہے 

”وہ دعائیں کہ قرآن و حدیث میں ہیں ان کے ساتھ دعا کرے ۔مستحب ہے کہ آخرِ نماز میں بعدِ اذکارِ نماز یہ دعا پڑھے:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ “(بہارِ شریعت، جلد نمبر 1، صفحہ535، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب

کتبہ

محمد ارسلان جلالی

8 جمادی الثانی 1446ھ 10 دسمبر 2024ء

نظرثانی و ترمیم:

مفتی محمد انس رضا قادری

 

Tashahud Men Rabbi Jaalni Parna

About محمد اطہر رضا

Check Also

حالت سجدہ میں دعا کرنا کیسا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ سجدہ کی حالت میں دعا کرنا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *