کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ ایک عورت عمرہ کے لئے جارہی ہے کہ اس کو حیض آگیا تو اب وہ کیا کرے؟عند الشرع کیا حکم ہے۔
المستفتی:-محمد ساجد رضا
الـــــجـــــــواب ھـــو المــوفـــق الــصــــواب:-جس عورت کو عمرہ کے لیے نکلنا ہو اور اسے حیض آجائے تو بھی وہ عمرہ کا احرام باندھ سکتی ہے اور تلبیہ بھی پڑھ سکتی ہے یعنی تمام افعال کرسکتی ہے سوائے طواف ونماز کے۔ البتہ عمرہ میں جو صفا ومروہ کے مابین سعی ہے وہ طواف کے تابع ہے کہ بغیر طواف کے سعی نہیں۔ لہٰذا جب عورت پاک ہو جائے تو طوافِ خانۂ کعبہ وسعی کرے۔
اب اگر عورت نے حالتِ حیض میں عمرہ کا احرام باندھا یا احرام پاکی کی حالت میں باندھا اور احرام باندھنے کے بعد حیض آگیا تو مکہ مکرمہ جانے کے بعد پاک ہونے کا انتظار کرے اور پاک ہونے کے بعد غسل کر کے عمرہ ادا کرے۔
لیکن اگر واپسی سے پہلے پہلے حیض سے پاک ہوکر عمرہ کرنے کی کوئی صورت نہ ہو، یعنی ویزا بڑھانے کی یا محرم کے ساتھ رہنے کی وغیرہ ذلک تو مجبوراً حالتِ حیض ہی میں عمرہ کرلے اور حرم کی حدود میں ایک دم (قربانی ) دے جو حالت حیض میں طواف کے سبب واجب ہوا۔إعلاء السنن جلد 10 ص 317 میں ہے “عن عائشة عن النبي ﷺ قال : الحائض تقضي المناسک کلها إلا الطواف بالبیت. رواه أحمد و ابن أبي شیبة”اھ۔ در مختار مع شامی جلد اول ص 532تا534 پر ہے “ثم ذكر أحكامه (قوله :يمنع صلاة) مطلقاً، ولو سجدة شكر، (وصوماً) وجماعاً … (و) يمنع حل (دخول مسجد و) حل (الطواف) ولو بعد دخولها المسجد وشروعها.اھ۔ ہدایہ شریف جلد اول ص 255 پر ہے “وأما السعي فلأنه تبع للطواف”اھ۔ هذا ما عندي والعلم بالحق عند ربى وهو تعالى أعلم بالصواب
عبد المقتدر مصباحي
خادم دارالعلوم اہلسنت فیض النبی کپتان گنج بستی یوپی