مسٔلہ
نور محمد مظفر پوری متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
کیا فرماتے ہیں مفتیان اسلام اس مسٔلہ میں کہ
آج کل بہت سے سامان اس طرح بیچے جاتے ہیں کہ اگر اتنی مدت میں خراب ہو گۓ تو واپس ہو جائیں گے ۔ اسے گارنٹی کا نام دیا جاتا ہے اور بعض سامان اس طرح بیچے جا رہے ہیں کہ اگر اتنے دنوں کے اندر خراب ہو جائے تو دوبارہ فری بنوا کر دئیے جائیں گے۔ اسے وارنٹی کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کی شرط کے ساتھ خرید و فروخت کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟
جواب
: الجواب بعون الملک الوہاب
اصل کلی یہ ہے کہ جو شرط تقاضۂ عقد کے خلاف ہو اور اس شرط کے لگانے میں بائع یا مشتری یا مبیع کا کوئی فائدہ ہو تو اس سے بیع فاسد اور ناجائز ہو جاتی ہے
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا
*ما بال رجال يشترطون شروطا ليست فى كتاب الله ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهوباطل وان كان مائة شرط
(صحيح البخاري)
اور ایک حدیث میں ہے: “ان النبی ﷺ نہی عن بیع و شرط“
(عمدة القاري)
عمدة القارى میں ہے “ وقال الاجماع على ان من شرط فى البيع شرطا إلایحل انہ لا يجوز “
ہدایہ میں ہے: “ثم جملةالمذهب فيه ان يقال كل شرط يقتضيه العقد کشرط الملک للمشتری لایفسد العقد لثبوته بدون الشرط و کل شرط لا یقتضیه العقد وفيه منفعة لاحدالمتعاقدين او للمعقود عليه وهو من اهل الاستحقاق يفسده“
مگر اس ممانعت کے باوجود بعض شرطوں کے ساتھ خرید و فروخت کی اجازت حدیث پاک اور ائمہ فقہ کے ارشادات سے ثابت ہے، چنانچہ خیار شرط، خیار عیب، خیار رویت کی پوری تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔ اسی طرح سے اگر تقاضائے عقد کے خلاف کوئی شرط لوگوں میں رائج ہو جائے تو ایسی شرط کے ساتھ اب وہ بیع فاسد ونا جائز نہیں ہوتی
ہدایہ میں ہے، “إلا أن یکون(الشرط) متعارفا لان العرف قاض علی القیاس“
در مختار ردالمحتار میں ہے یصح البیع بشرط جری العرف بہ کبیع نعل أ ي يصح البيع و يلزم الشرط استحسانا للتعامل“۔
اس تفصیل کی روشنی میں واضح ہے کہ جن سامانوں کی خریدو فروخت گارنٹی یا وارنٹی کی شرط کے ساتھ عام طور سے رائج ہو گئی اس پر تعامل ناس پا لیا گیا ہو تو اب اس شرط کے ساتھ بیع وشرا ناجائز نہیں ہے۔
چنانچہ بہار شریعت میں ہے: “جس(شرط) پر مسلمانوں کا عام طور پر عمل در آمد ہے، جیسے آج کل گھڑیوں میں گارنٹی سال دو سال کی ہوا کرتی ہے کہ اس مدت میں خراب ہو گئ تو درستی کا ذمے دار بائع ہے ایسی شرط بھی جائز ہے”۔
والله تعالیٰ اعلم
كتبه: محمد اختر حسین قادری
خادم افتاء ودرس دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی