اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے علماۓ کرام ومفتیان کرام ایک لڑکا لڑکی بھگاکے لے آیا ہے اور اسکے گھر والے چار دن سے رکھیے ہوۓ ہیں اب وہ لڑکا نکاح کرنا چاہتا
اس پر شریعت کا کیا حکم ہے
المستفتی:-زبیر احمد قادری نظامی۔ مقام تلیا پوسٹ کوٹ خاص گونڈہ یوپی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
الـــــجـــــــواب بـــعون المــلک الـــوھـــاب:-لڑکا لڑکی دونوں نے خلاف شرع ایک دوسرے سے تعلق رکھا حتی کہ لڑکا لڑکی کو بھگا لایا اور لڑکی بھی برضا بھاگ کر چلی آئی اس لئے دونوں شرعاً ظالم وجفاکار اور مجرم وسخت گنہگار وحرام کار ہیں دونوں پر لازم ہے کہ پہلے علانیہ توبہ واستغفار کریں اور بارگاہ الہٰی میں صدق دل سے ندامت کے ساتھ رجوع کریں اور بعد توبہ واستغفار کے صدقہ وخیرات کریں اور نماز کی پابندی کا عہد کریں۔ قال اللّٰہ تعالیٰ”وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا(سورۂ فرقان 71)۔ پھر اگر دونوں راضی ہوں اور لڑکی غیر منکوحہ ہو نیز لڑکا لڑکی کا کفو ہو تو دونوں شرعی طور پر نکاح صحیح کرلیں۔
البتہ اگر لڑکی منکوحہ ہے تو ایک دوسرے سے ہرگز نکاح نہیں ہوسکتا۔ یوں ہی اگر لڑکا لڑکی کا کفو نہیں ہے یعنی مذہب،قوم، پیشہ وغیرہ میں لڑکی کی بنسبت لڑکا ایسا کم ہے کہ لڑکی کے ولی کے لئے باعث ننگ و عار ہو تو انکا نکاح بے اجازت ولی صحیح نہیں ہے۔درمختار ج 4ص 150 تا 152میں ہے “نفذ نكاح حرة مكلفة بلا رضي ولي ويفتي في غير الكفؤ بعدم جوازه اصلاوهو المختار للفتوي لفساد الزمان.اه.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
عبد المقتدر مصباحی
خادم دارالعلوم اہلسنت فیض النبی کپتان گنج بستی یوپی