السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین اس مسئلے پہ کہ
زید نے سارہ سے کہا کہ تو میری بیوی ہے نا؟ پھر سارہ نے بھی زید سے جواب میں کہا ہاں۔ اور پھر سارا نے بھی زید سے کہا کہ آپ میرے شوہر ہیں نا؟ تو زید نے بھی جواب میں کہا کہ ہاں۔ ایسا معاملہ کئی بار ہوا۔ اور دونوں سفر بھی ساتھ کرتے رہے اور سفر میں بھی لوگوں سے یہی کہتے رہے کہ ہم دونوں میاں بیوی ہیں اس پہ سارا بھی بولتی رہی ہاں۔ اسی طرح دونوں نے کئی مرتبہ ایجاب و قبول کیا۔ تو کیا اس حال میں دونوں کا نکاح ہو گیا؟ اہل سنت والجماعت کے علماء کرام کی بارگاہ میں گزارش ہے کہ برائے مہربانی اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
العارض:- علاؤالدین رضا. پتہ بنارس( یو پی)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
الـــــجـــــــواب ھـــو المــوفـــق الــصــــواب:-آپس میں گواہوں کے سامنے میاں بیوی ہونے کا اقرار کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ وہ اقرار نکاح سابق کی خبر ہے۔صورت مسئولہ میں جو الفاظ جس انداز میں زید وسارہ نے استعمال کئے وہ صرف انشاء کے لئے موضوع نہیں بلکہ اقرار واخبار کے لئے بھی ہیں اس لئے ان سے انعقاد نکاح نہ ہو گا بلکہ قضاء نکاح کا ثبوت ہوگا۔ اس لئے کہ انعقاد نکاح کے لئے ضروری ہے کہ الفاظ بطور انشاء انعقاد نکاح کے لئے بولے جائیں اور گواہان کو بھی خبر ہو کہ یہ اخبار واقرار نہیں ہے بلکہ انعقاد نکاح ہو رہا ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ جو الفاظ ایسے ہوں جو انشاء واخبار دونوں پر دلالت کرتے ہوں تو ضروری ہے کہ ان سے انشاء نکاح کا قصد ہو اور گواہان کو بھی معلوم ہو کہ یہ انشاء نکاح کے لئے بولا گیا ہے نہ بطور خبر۔ اور اگر کسی نے ایسے الفاظ استعمال کیے جو انشاء کے لیے وضع ہی نہ ہوں، بلکہ صرف اقرار واخبار کے لیے ہوں تو ان الفاظ سے نکاح منعقد نہ ہو گا۔ در مختار مع شامی جلد 4 ص 84 میں ہے “ولا (بالإقرار على المختار) خلاصة كقوله: هي امرأتي لأن الإقرار إظهار لما هو ثابت، وليس بإنشاء.” فتاویٰ ھندیہ جلد اول ص 272 پر ہے”ما زن وشویم لا ينعقد النكاح بينهما هو المختار كذا في الخلاصة ولو قال ایں زن من است بمحضر من الشهود وقالت المرأة ایں شوی من است ولم يكن بينهما نكاح سابق لا يكون نكاحا كذا في الظهيرية وفی شرح الجصاص المختار أنه ينعقد إذا قضي النكاح أو قال الشهود لهما جعلتما هذا نكاحا فقالا نعم ينعقد هكذا في مختار الفتاوى.اھ
سیدی سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ اگر زید نے اقرار کیا کہ یہ میری بی بی ہے اور ہندہ نے بیان کیا کہ یہ میرا خاوند ہے یہ قیل وقال محضر شہود(گواہوں کی موجودگی)میں بیان کی گئی۔ کیا ان الفاظ سے انعقاد نکاح ہو جاتا ہے؟۔۔ جواباً آپ نے ارشاد فرمایا “جب وہ دونوں اقرار کریں کہ ہم زوج وزوجہ ہیں یا باہم ہمارا نکاح ہوگیا ہے یا اور الفاظ جو اس معنیٰ کو مؤدی ہوں تو بلا شبہہ انہیں زوج وزوجہ جانیں گے اور قضاء تمام احکام زوجیت ثابت ہوں گے بلکہ عند الناس اس سے بھی کمتر امر ثبوت نکاح کو کافی ہے جب مرد وزن کو دیکھے مثل زن وشو ایک مکان میں رہتے اور باہم انبساط زناشوئی رکھتے ہیں تو ان پر بدگمانی حرام اور ان کے زوج وزوجہ ہونے پر گواہی دینی جائز اگر چہ عقد کا معائنہ نہ کیا ہو.اھ (فتاویٰ رضویہ رضویہ 5 ص94) خلاصہ کلام یہ ہے کہ مثلاً غیر معروف مرد وزن کہیں سے آئے اور آپ کے علاقے میں میاں بیوی کی طرح رہنے لگے یا اقرار کیا کہ ہم میاں بیوی ہیں تو انہیں میاں بیوی مانا جائے گا بلا وجہ تحقیق ضروری نہیں اور قضاء نکاح کا ثبوت ہوگا نہ کہ اس سے نکاح کا انعقاد ہو۔ اسی لئے آگے ص 95 پر فرماتے ہیں کہ “بایں ہمہ حکم قضا اور ہے اور امر دیانت اور چیز اگر وہ اپنے اس اظہار واخبار میں حقیقتاً سچے ہوں یعنی واقع میں ان کے باہم نکاح ہو لیا ہے تو عند اللہ بھی زوج وزوجہ ہیں *ورنہ مجرد ان الفاظ سے جبکہ بطور اخبار بیان میں آئے ہوں نکاح منعقد نہ ہو گا* وہ بدستور اجنبی واجنبیہ رہیں گے نکاح جن امور وافعال کو ثابت وحلال کرتا ہے دیانۃ ان کے لئے اصلا ثابت وروا(جائز) نہ ہوں گے کہ اس تقدیر پر یہ الفاظ کوئی عقد وانشاء نہ تھے محض جھوٹی خبر تھی اور جھوٹی خبر دیانۃ باطل وبے اثر۔اھ مزید اسی ص پر آگے فرماتے ہیں *”اقرار خلاف واقع سے نکاح منعقد نہ ہوگا* ولہذا عامۂ علماء متون وشروح وفتاویٰ میں تصریح فرماتے ہیں کہ مجرد اقرار مرد وزن سے نکاح ہرگز منعقد نہیں ہوتا۔وقایۃ الروایۃ و مختصر الوقایۃ میں ہے “لا ينعقد بقولهما عند الشهود ما زن وشويم.اھ
اور اگر وہ دونوں یعنی زید وسارہ اس سوال وجواب سے انعقاد نکاح کا قصد وارادہ رکھتے ہوں تو اس تعلق سے سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں *”اور شک نہیں کہ ظاہراً عوام ان الفاظ سے ارادۂ انشاء کو جانتے بھی نہ ہوں گے بلکہ جو ان کا مفہوم متبادر ہے یعنی اخبار وہی ان کا مراد ومقصود ہوگا اور سامعین بھی انہیں سن کر یہی سمجھیں گے تو جبکہ واقع میں اس سے پہلے نکاح نہ ہوا تو صرف یہ سوال وجواب واخبار غلط کیونکر انہیں عند اللہ زوج وزوجہ بنا سکتے ہیں* اھ
(فتاویٰ رضویہ جلد پنجم ص 97).
مزید اسی میں ص 99 پر ہے “ایسے الفاظ کہے جن میں اخبار وانشاء دونوں احتمال ہیں اور نیت انشاء کی کی تو نکاح صحیح ہے یعنی *جبکہ حاضرین کو یہ علم ہو کہ ان الفاظ سے عقد(نکاح) مقصود ہے خبر دینا مقصود نہیں* اور اگر اخبار کے لئے متعین ہوں تو اگرچہ انشاء عقد(نکاح)کی نیت کی ہو ان الفاظ سے نکاح کا انعقاد نہیں ہوسکتا۔
آخر میں ص 101 پر رقم طراز ہیں “پس مسئلہ دائرہ میں *جبکہ مرد وزن ان الفاظ سے قصد انشاء کریں اس کے ساتھ یہ بھی ضرور کہ دوشاہد بھی ان کی اس گفتگو کو عقد نکاح سمجھیں* خواہ بذریعۂ قرائن یا خود عاقدین کے مطلع کر رکھنے سے ورنہ اگر سب حضار(موجود لوگوں) نے اسے محض اخبار جانا تو فاھمین أنه نكاح صادق نہ آیا اور نکاح صحیح نہ ہوا۔اھ
پس پوچھی گئی صورت میں اگر زید وسارہ نے وہ الفاظ جو سوال میں مذکور ہوئے بطور انشاء عقد نکاح کے لئے استعمال کیا اور اس گفتگو کو گواہوں یعنی موجود لوگ بھی جانتے ہوں کہ یہ لوگ نکاح کر رہے ہیں نہ کہ خبر دے رہے ہیں تو ہی نکاح منعقد ہوگا ورنہ نہیں اور جب نکاح نہیں ہوا تو وہ دونوں اب بھی ایک دوسرے کے لئے اجنبی واجنبیہ ہی ہیں۔
ھذا ما ظھر لی والعلم بالحق عند ربی وھو تعالیٰ اعلم بالصواب
عبد المقتدر مصباحی