َسیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک نظر میں
” قل لو كان البحر مدادا لکلمت ربی لنفد البحر قبل أن تنفد کلمت ربی ” مفھوم آیت یہ کہ عالم دنیا کے تبحر کاٹ کر قلم بنا دیے جائیں اور بحر بیکراں کی سیاہی تو اللہ اور اس کے پیغمبر، آمنہ کے نور نظر کے اوصاف حمیدہ کو زیب قرطاس کیا جاۓ تو رب العالمین اور رحمۃ اللعالمین کی سیرت مطہرہ کا اک باب بھی رقم نہ ہوگا.
کما قال اللہ تعالیٰ فی مقام آخر
“ولو انما فی الارض من شجرۃ أقلام والبحر یمدہ من بعدہ سبعۃ ابحر ما نفدت کلمات اللہ “
بلفظ دیگر سیرت النبی ایک ایسا موضوع اور عنوان ہے جس پر کائنات ارضی کے سیرت نگاروں اور قلمکاروں نے ہر دور، ہر زمانے میں دیکھنے, لکھنے کی کوشش کی ہے مگر ہمیشہ ان کی تشنگی رہی ہے اپنی سوچ اور تخیل کی طہارت سے سچے لفظوں میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر اظھار خیال کررہا ہوں
قال حسان بن ثابت عند ما رای الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
واحسن منک لم ترقط عینی واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرءا من کل عیب کانک قدخلقت کما تشاء
ارباب نظر کو کوئ ایسا نہ ملے گا بندے تو ملینگے پر مولی نہ ملیگا تاریخ اگر ڈھونڈےگی ثانئ محمد ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملےگاعبادات و طاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتاہے راقم بھی چند سطور کے ذریعےمافی الضمیر کو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہےکتب تفاسیر میں مفسرین کرام ” ورفعنا لک ذکرک” کے متعلق فرماتے ہیں دنیا میں ہر لمحہ، ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ کی سیرت سنائ اور بتاتی جاتی رہیگی پھر بھی سیرت النبی کا عنوان پرانا نہ ہوگا یہی معجزہ ہے سیرت النبی کا، اور یہی تفسیر” ورفعنا لک ذکرک ” کی ہے اور
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خوبصورت جھلک “ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ” آیت کریمہ سے ملتی ہے کہ جان ایمان صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مستعار مکمل مشعل راہ ہے اور
سیرت مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسلمان نمونۂ کامل بنانے پر قادر نہی ہوگا آپ جہاں داعئ برحق ہیں تو وہیں انسان کامل بھی ہیں آپ بنظر غائر دیکھیں تو بات اظھر من الشمس نظر آئیگی کہ سیرت نبوی کے تناظر میں وہی طریقہ اسلامی طریقہ ہوگا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے قولا، فعلا منقول ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی منقول ہے ” من رغب عن سنتی فلیس منی” جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر و استقامت ملاحظہ فرمائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق اور اعلان توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے ایسے ایسے مصائب و آلام دیکھے کہ کوئ اور ہوتا تو ہمت ہار جاتا – مگر آپ صبرو استقامت کے کوہ گراں تھے دشمنان اسلام نے قدم قدم پر آپ کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا، مجنون و دیوانہ کہا، ساحر و کاہن کا لقب دیا، راستوں میں کانٹے بچھاۓ، جسم اطہر پر غلاظت ڈالی، لالچ دیا، دھمکیاں دیں، اقتصادی ناکہ بندی اور سماجی مقاطعہ کیا، آپ کے شیدائیوں پر ظلم و ستم اور جبر و استبداد کے پہاڑ توڑے، نئے نئے لرزہ خیز عذاب کا جہنم کھول دیا کہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جاۓ، حق کی آواز دب جاۓ مگر دور انقلاب شروع ہو گیا تھا- توحید کا نعرہ بلند ہو چکا تھا اس کو غالب آناہی تھا اسی کو اللہ رب العزت قرآن مقدس میں یوں ارشاد فرماتا ہے
” یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون”
کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور ( ایمان و اسلام ) کو اپنی پھنکوں سے بجھادیں اور اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگر چہ کفار اس کو ناپسند کریں
خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
ابتلاء و آزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالا گیا کسی اور کو نہیں ڈالا گیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت دوشنبہ کے روز صبح صادق کے وقت ربیع الاول، عام الفیل بمطابق اپریل ٥٧١ عیسوی میں ہوئ
ولادت کے چوتھے سال شق صدر کا واقعہ پیش آیا
مورخین لکھتے ہیں کہ شق صدر کا واقعہ چاربار پیش آیا
ایک) زمانۂ طفولیت میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا کے پاس –
دوسری بار) دس سال کی عمر میں پیش آیا( فتح الباری ) تیسری بار) واقعۂ بعثت کے وقت پیش آیا ( مسند ابی داؤد الطیالسی ) –
اور چوتھی بار) واقعۂ معراج کے موقع پر ( صحیح البخاری ) آپ تقریباً چھ سال تک حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں رہے – ولادت کے چھٹے سال آپ کی والدۂ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنھا نے اپنے میکے میں ایک ماہ کا قیام کیا وہاں سے واپسی پر مقام ابواء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئیں (شرح المواہب للزرقانی )
ولادت کے ساتویں سال آپ اپنے دادا عبد المطلب کی تربیت میں پروان چڑھتے رہے- اور ولادت کے آٹھویں سال دادا محترم کا انتقال ہو گیا دادا کے انتقال کے بعد آپ اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آگئے ( طبقات ابن سعد )
اور ولادت کے بارھویں سال آپ نے اپنے چچا کے ساتھ شام کے پہلے تجارتی سفر میں شرکت کی اسی سفر میں بحیرا راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی پیشین گوئ بھی کی ( الخصائص الکبری )
اور ولادت کے چودھویں سال یا پندرہویں سال اور بعض روایات کے مطابق بیسویں سال عربوں کی مشہور لڑائ “حرب الفجار” پیش آئی اس جنگ میں آپ اپنے بعض چچاؤں کے اصرار پر شریک تو ہوۓ لیکن قتال میں حصہ نہی لیا اور ولادت کے سولہویں سال میں آپ نے اہل مکہ کے( پانچ خاندانی معاہدے ) ” حلف الفضول” نامی معاہدے میں شرکت کی اور ولادت کے پچیسویں سال میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا مال لیکر تجارت کا دوسرا سفر شام کی طرف کیا – سفر سے واپسی پر اس سفر میں پیش آنے والے واقعات تجارتی نفع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و واقعات سن کر دو مہینہ پچیس روز کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ کو نکاح کا پیغام بھیج کر آپ سے نکاح کرلیا ( طبقات ابن سعد )
اور ولادت کے پینتیسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی ہونے والی تیسری لڑائ تعمیر کے وقت حجر اسود کو اپنے دست اقدس سے نصب فرماکر خانہ جنگی کے لئے کمر بستہ قبائل قریش کے درمیان باہمی محبت و الفت پیدا فرمادی اور اس کٹھن مرحلے کو بحسن و خوبی انجام تک پہونچایا ( سیرت ابن ہشام )
حیات طیبہ کے انتالیس سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا بے نظیر رہا کہ اپنے تو اپنے بلکہ غیروں کی زبان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھا کہ آپ صادق اور امین ہیں
ولادت کے چالیسویں سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تر وقت غارحرا میں گزارا اور یہیں آپ کے سر اقدس پر نبوتو رسالت کا تاج رکھا گیانبوت کے پہلے سال غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں ( شرح المواہب ) باتفاق مؤرخین آپ کو نبوت اتوار کے دن عطا ہوئ لیکن مہینے کے بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے ( باعث کثرت اختلاف ترک کردیا)
نبوت کے دوسرے سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ تبلیغ فرماتے رہے اسی سال حضرت خدیجہ و حضرت عثمان بن عفان و دیگر نفوس قدسیہ رضی اللہ عنھم/ عنھن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے
نبوت کے تیسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئ نبوت کے چوتھے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی الاعلان دعوت دین دینے کا حکم دیا جس کی بناء پر کفار خصوصاً قریش کی طرف سے بھی کھلم کھلا دشمنی اور بغض و عداوت کا مظاہرہ ہونے لگا اور اسی سال ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت ہوئ نبوت کے پانچویں سال حبشہ کی طرف پہلی اور دوسری ہجرت ہوئ اسی سال حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوۓ اور ان کی برکت سے مسجد حرام میں نماز اعلانیہ ادا کی گئ (شرح المواہب )
نبوت کے ساتویں سال مقاطعۂ قریش کا واقعہ پیش آیا آپ علیہ السلام کے ساتھ بنو ہاشم اور بنو مطلب شعب ابی طالب میں محصور کردیئے گئے
نبوت کے آٹھویں سال مشرکین مکہ کے مطالبہ پر شق قمر کا بے مثال معجزہ رونما ہوا (البدایہ والنھایہ)
نبوت کے نویں سال بھی شعب ابی طالب میں ہی محصور رہے
نبوت کے دسویں سال مقاطعہ ختم ہوا – اسی سال آپ کے چچا ابوطالب کا انتقال ہوا ان کے انتقال کے بعد تقریباً تین یا پانچ دن بعد حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنھا کا انتقال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو” عام الحزن ” قرار دیا اور اسی سال واقعۂ طائف بھی پیش آیا
نبوت کے گیارہویں سال مدینہ سے آنے والے حجاج میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر تقریباً چھ آدمی مشرف بہ اسلام ہوۓ
نبوت کے بارھویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج نصیب ہوئ اور اسی موقع پر امت وسطی پر اوقات خمسہ کی نمازمفروض ہوئیں اسی سال بیعت عقبۂ اولی ہوئ
نبوت کے تیرھویں سال بیعت عقبۂ ثانیہ ہوئ اسی سال مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مل گئ اسی سال قریش نے نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا
غزوات وسرایا پر طائرانہ نظر
ہجرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت اسلام کی تحریک میں کشادہ میدان اور مخلص معاون افراد ملے جس کے باعث قبائل عرب میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا – تو دوسری جانب مشرکین مکہ اور یہود مدینہ کی برپا کردہ لڑائیوں کا سامنا بھی تھا مکہ میں مسلمان کمزور اور بے قوت و طاقت تھے اس لیے ان کو صبرو استقامت کی تاکید و تلقین کی تھی مدینہ میں مسلمانوں کو وسعت و قوت حاصل ہوئ اور اجتماعیت و مرکزیت نصیب ہوئ اللہ تعالٰی نے دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منھ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائ
اور غزوات و سرایا کا سلسلہ شروع ہوا چند اہم غزوات یہ ہیں
غزوۂ بدر )
٢ / ہجری میں مؤمنین و مشرکین مکہ کے درمیان میدان بدر میں سب سے پہلا غزوہ پیش آیا
غزوۂ احد)
٣ / ھجری شوال میں یہ غزوہ ہوا مسلمان سات سو اور کفار تین ہزار تھے
غزوۂ ذات الرقاع)
٤/ ھجری میں پیش آیا اسی میں آپ نے صلوۃ الخوف ادا فرمائ
غزوۂ احزاب)
( خندق) ٥ / ھجری میں ہوا مشرکین مکہ نے قبائل عرب کا متحد محاذ بن کر حملہ کیا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے مدینۃ المنورہ کے گردو نواح چھ کلو میٹر لمبی خندق کھدوائ تھی اسی لئے اس کو غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں
غزوۂ بنی المصطلق)
٦ / ھجری میں ہوا اسی میں منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگائ تھی
صلح حدیبیہ) بھی
٦ / ھجری میں ہوئ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا ارادہ فرمایا تھا اور چودہ سو صحابۂ کرام کے ساتھ روانہ ہوۓ تھے کہ مشرکین مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور وہیں صلح ہوئ کہ آئندہ سال عمرہ کر سکتے ہیں ( کما وقع التفصیل فی کتب السیر )
غزوۂ خیبر)
٧ / ھجری میں پیش آیا یہ یہودیوں سے آخری غزوہ تھا اس سے قبل غزوۂ بنو نضیر اور غزوۂ بنو قریظہ میں یہودیوں کو جلاوطن اور قتل کیا گیا تھا
غزوۂ تبوک)
٩ / ھجری میں پیش آیا ہرقل سے مقابلہ تھا، دور کا سفر تھا، شام جانا تھا، گرمی کا زمانہ تھا اس لئے آپ نے خلاف عادت اس غزوہ کا اعلان فرمایا، چندہ کی اپیل کی، صابۂ کرام نے دل کھول کر چندہ دیا- اور تیس ہزار کا عظیم الشان لشکر لیکر آپ تبوک روانہ ہوۓ مگر ہرقل بھاگ گیا اور آپ مع صحابہ واپس بخیریت مدینہ تشریف لاۓ اس غزوہ میں بھی بہت سے اہم واقعات پیش آۓ جن کی ایک تفصیل سیر کی کتابوں میں درج ہے
کچھ اہم واقعات
٢ / ھجری میں ہجرت کے بعد سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ ہوا
٢ / ھجری میں روزہ فرض کیا گیا
٤ / ھجری میں شراب حرام ہوئ
فتح مکہ اور غزوۂ حنین ٨ / ھجری میں اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ عینی فتح مکہ پیش آیا جس میں پہلی بار مسلمان تعداد میں بارہ ہزار اور کفارطائف چار ہزار تھے ورنہ ہر غزوہ میں مسلمان کم اور دشمن کی تعداد دوگنا، تین گنا ہوتی تھی
ورق تمام ہوا مدح باقی ہے سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
براۓ تحقیق ماخوذ عنہ معاون کتب سیر)
( ١ سیرت المصطفی، علامہ اعظمی (٢) الرحیق المختوم، صفی الرحمن مبارکپوری، (٣) ضیاء النبی، پیر کرم شاہ ازہری (٤) سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جان رحمت افادات امام احمد رضا خان بریلوی مرتب محمد عیسی قادری )
سمیر احمد فیضی
نزیل حال جامعہ ازھر شریف مصر قاھرہ