شیخ الہند حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ

 اسم گرامی: شیخ سلیم الدین۔
لقب: شیخ الہند۔
سلسلہ نسب: شیخ سلیم الدین بن بہاءالدین بن شیخ سلطان بن شیخ آدم بن شیخ موسیٰ بن شیخ مودود بن شیخ بدرالدین بن شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ عنہم اجمعین۔

خاندانی پس منظر: آپ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرر رحمۃ اللّٰه علیہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام بی بی احد ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد اجودھن سے ہجرت کرکے لدھیانہ آئے، کچھ عرصہ لدھیانہ میں رہے، پھر دہلی میں سکونت اختیار کی، آپ کے والدین دہلی سے ترک سکونت کرکے فتح پور سیکری میں رہنے لگے۔

ولادت باسعادت: آپ کی ولادت 897ھ [بقول بعض 877، 884ھ] بمطابق 1492ء یا 1479ء کو دہلی کے اس وقت کے محلہ سرائے علاءالدین زندہ پیر میں ہوئی۔

بچپن کی کرامت: آپ نے پیدا ہوتے ہی سجدہ کیا۔ آپ کی پیشانی میں دھان کا ایک دانہ چبھ گیا۔ اس کا نشان پیشانی پر تمام عمر رہا۔ ایک بار اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ دھان کے دانے چبھنے سے کافی تکلیف ہوتی تھی۔ اس کو نکالنا چاہا، لیکن اس خیال سے نہیں نکالا کہ لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوگا۔

تحصیلِ علم: ابھی آپ کم سن ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے بڑے بھائی کے زیرِ سایہ ہوئی۔ آپ کے بڑے بھائی شیخ موسیٰ نے آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ سنِ بلوغ پر پہنچ کر آپ نے تحصیلِ علم کےلئے سفر کا ارادہ کیا، اپنے بڑے بھائی سے اجازت مانگی، آپ کے بڑے بھائی نے آپ کو اجازت نہیں دی اور کہا کہ میری اولاد نہیں ہے، اور میں نے تمہیں اولاد کی طرح پالا ہے، لہذا تمہاری جدائی برداشت نہیں ہوگی۔ یہ سن کر آپ نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ ناامید نہ ہونا چاہیے، آپ کے ہاں ان شاء اللّٰه لڑکا پیدا ہوگا اور تمہارا گھر روشن ہوگا، چنانچہ ایساہی ہوا، نو مہینے کے بعد شیخ موسیٰ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ پھر آپ نے برادر اکبر کی اجازت و رضامندی سے مزید تحصیل علم کےلئے فتح پور سیکری سے سرہند تشریف لائے اور ملک العلماء شیخ مجدالدین رحمۃ اللّٰه علیہ سے علوم ظاہری کی تکمیل کی، جس زمانے میں آپ کا قیام سرہند میں تھا، آپ کبھی کبھی قصبہ بدالی جاتے اور حضرت شیخ زین العابدین چشتی قدس سرہ کے مزار سے فیوض و برکات حاصل کرتے۔ آپ تمام علوم کے جامع تھے۔

بیعت و خلافت: سیر و سیاحت کے دوران آپ بہت سے بزرگوں اور درویشوں سے ملے اور ان سے فیوض و برکات حاصل کئے، حضرت شیخ ابراہیم چشتی قدس سرہ کے دست حق پرست پر آپ بیعت ہوئے اور ان سے خرقہ خلافت پایا۔

سیرت و خصائص: سید الاولیاء، سندا لاتقیاء، رئیس الصوفیاء، جامع الکمالات، عارف بااللہ، واصل باللہ، متصرف الامور، نادر الوجود، صاحب الیقین حضرت خواجہ شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کمالات علمیہ و روحانیہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت شیخ الاسلام فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللّٰه علیہ سے خاندانی تعلق تھا۔ آپ حضرت گنج شکر کے روحانی کمالات کے پرتوِ جمیل تھے۔ آپ کے تصرفات و کرامات کا شہرہ چہار دانگ عالم میں تھا۔ آپ کوہ سیکری کے بیابان جنگلات و غاروں میں اقامت گزیں ہوتے، لیکن اس کے باوجود مخلوق خدا کا ایک جم غفیر آپ کی خدمت میں حاضر رہتا۔ آپ نے اس جنگل کو اپنی عبادت ریاضت کی برکت سے مخلوق خدا کی دلوں کی تسکین بنا دیا تھا۔ جہاں بھی آپ تشریف لے جاتے آپ کی ذات مرجعِ خلائق بن جاتی، جب آپ حرمین طیبین تشریف لے گئے تو عرب شریف میں ’’شیخ الہند‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ تمام عمر صوم وصال رکھتے، بے انتہا عبادت و ریاضت گزار تھے۔ آپ کی مشقتیں دیکھ کر حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مجاہدات شاقہ کی یاد تازہ ہوجاتی۔ ابتدائی ایام جوانی میں مجاہدین جیسا لباس زیب تن فرماتے۔ (اخبار الاخیار، 656)
آپ صاحب علم و فضل، جامع شریعت و طریقت بزرگ تھے، زہد و تقویٰ، ریاضت، مجاہدات، ترک و تجرید، تحمل، بردباری میں یگانہ عصر تھے، جب تک آپ بہت کمزور و ضعیف نہ ہوگئے، آپ نے طے کے روزے نہیں چھوڑے، آپ کو پرانا سرکہ اور ٹھنڈی ترکاریاں بہت مرغوب تھیں، ٹھنڈے پانی سے روزانہ غسل فرماتے تھے، کیسی ہی سردی ہو، آپ کے لباس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی، جاڑے کے موسم میں بھی باریک کرتا زیب تن فرماتے تھے، نماز اول وقت پڑھتے تھے۔ آپ کی نشست گاہ بالکل امیروں اور حاکموں کی طرح تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ان باتوں سے جو خلاف شریعت ہیں طاقت سے روکتے تھے، جب آپ محفل میں رونق افروز ہوتے تو ہر شخص پر نگاہ رکھتے، کسی کو ڈانٹتے، کسی کو نصیحت فرماتے اور کسی کو تعلیم و تلقین فرماتے۔ (اخبار الاخیار، 657۔ تذکرہ اولیائے پاک و ہند، 210)
 تعلیم سے فراغت کے بعد 1525ء کو حج کے لئے تشریف لے گئے۔ مکہ معظمہ و مدینہ کے علاوہ بلاد اسلامیہ کی سیاحت فرماتے ہوئے، ہندوستان فتح پور سیکری تشریف لائے۔ یہاں خانقاہ تعمیر کرائی، کنوئیں کھدوائے اور تلقین و ارشاد میں مصروف ہوگئے۔ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ نے 24 حج کیے تھے۔ جب آخری مرتبہ حج کےلیے تشریف لےگئے تو چار سال مکہ میں اور چار سال مدینہ منورہ میں گزارے۔ حج کے ایام مکے میں اور میلاد کے ایام مدینے میں گزارتے تھے۔ (چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر، 134)

سلاطین سے تعلقات: علاوہ امراء کے سلاطین بھی آپ کے معتقد تھے۔ خواص خاں جو امرائے کبار میں تھا، آپ سے بہت عقیدت رکھتا تھا، کئی بادشاہ آپ کے معتقد تھے۔ شیرشاہ، سلیم شاہ (جہانگیر) اور اکبر آپ سے ارادت و عقیدت رکھتے تھے اور بہت خلوص، محبت اور عزت اور تعظیم و تکریم سے آپ سے پیش آتے تھے۔

جہانگیر بادشاہ کی پیدائش آپ کی دعا کی بدولت ہوئی: شہنشاہ اکبر کا کوئی لڑکا نہ تھا، آپ سے دعا کا طالب ہوا، آپ نے مراقبہ کیا اور شہنشاہ اکبر سے کہا: ’’افسوس کہ تیری تقدیر میں بیٹا نہیں ہے‘‘۔ شہنشاہ اکبر نے یہ سن کر آپ سے عرض کیا۔ چونکہ میری تقدیر میں بیٹا نہیں ہے، اسی لئے تو آپ سے عرض کیا ہے، آپ دعا کیجئے۔ (یعنی اگر تقدیر میں ہوتا تو ویسے ہی مل جاتا، آپ کی بارگاہ میں آنے کا کیا فائدہ؟) آپ شہنشاہ اکبر کے اس جواب سے خوش ہوئے، تھوڑی دیر مراقبہ کیا اور پھر فرمایا۔ “اس ملک میں راجپوتوں کی حکومت بہت عرصہ تک رہےگی۔ اچھا کلاپنی بیگم کو میری بیوی کے پاس بھیج دینا”۔ دوسرے دن جب بادشاہ کی بیگم آپ کے یہاں آئی تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو رانی کی پشت سے پشت ملاکر بیٹھنے کا حکم دیا، جب آپ کی اہلیہ محترمہ رانی کی پشت سے پشت ملاکر بیٹھیں تو آپ نے اپنی چادر دونوں پر ڈال دی، پھر اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ اپنا ہونے والا فرزند رانی کو دے دو۔ جب بادشاہ بیگم کے لڑکا پیدا ہوا تو اس لڑکے کا نام آپ نے اپنے نام پر “سلیم” رکھا، شہزادہ سلیم آپ کو “شیخو بابا” کہا کرتا تھا، شہزادہ سلیم اپنے والد شہنشاہ اکبر کے انتقال کے بعد تخت و تاج کا مالک ہوا اور “جہاں گیر” کے لقب سے مشہور ہوا۔ اکبر نے شہر فتح پور آپ کی عقیدت میں تعمیر کرایا تھا۔ اس وقت اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی تھی۔ اِس وقت بھی اس کی اکثر تعمیرات اپنی خوبصورتی، اور فن تعمیر کا شاہکار ہونے کی وجہ سے عالمی ورثہ قرار دی جاچکی ہیں۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ حجرے سے نماز کےلئے مسجد جا رہے تھے، ایک فقیر کو دیکھا کہ سو رہا تھا، آپ نے اس کو جگایا اور اس سے فرمایا۔ “فقیروں کو کسی سے لڑنا نہیں چاہیے”۔ وہ فقیر یہ سن کر شرمندہ ہوا اور اقرار کیا کہ واقعی وہ خواب میں لڑ رہا تھا۔ آپ نے فتح پور سیکری کے لوگوں سے شاہی عمارت تعمیر ہونے والی پندرہ سال قبل فرمایا تھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ مکانات کشادہ بنالیں، ورنہ پھر جگہ نہیں ملے گی۔

وصال: آپ کا وصال 29 رمضان المبارک 979ھ بمطابق ماہ فروری 1571ء کو ہوا۔ آپ کا عالی شان مزار فتح پور سیکری میں مرجعِ خلائق ہے۔

ماخذ و مراجع: اخبار الاخیار۔ خزینۃ الاصفیاء، ج 2۔ تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔ انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام۔چشتی خانقاہیں اور سربراہان بر صغیر۔ سفینۃ الاولیاء۔

 

shaikhul hind hazrat shaikh salim chishti rahmatullahi alaihi

شیخ الہند حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ

 

About قاسم رضا امانتی

Check Also

حضور مفتی اعظم ہند : تعارف

حضور مفتی اعظم ہند کی حیات طیبہ کے مختلف گوشے خاک پاۓ مفتیِ اعظم ہند …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *