مسئلہ
زید اور ہندہ کافی عرصے سے الگ رہ رہے ہیں ہوا یوں کہ ہندہ اپنے شوہر زید کو چھوڑ کر کسی کافر کے ساتھ بھاگ گئی تھی تقریباً چار سال تک وہ اُس کافر کے ساتھ رہی پھر اُس نے کافر کا ساتھ چھوڑ دیا اب وہ کسی اور سے نکاح کرنا چاہتی ہے اور زید سے طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے اُس پر زید کہتاہے کہ طلاق تو ہو چکی ہے جا تُجھے جہاں شادی کرنا ہے کر لے اس صورت میں کیا حکم ہے.
الجواب بعون الملک الوھاب
بیوی کے مطالبہ طلاق پر شوہر کے قول “طلاق تو ہوچکی ہے” سے ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے، چناں چہ المبسوط للسرخسی میں ہے:
” أن من أقر بطلاق سابق یکون ذٰلک إیقاعا منہ في الحال؛ لأن من ضرورۃ الاستناد الوقوع في الحال، وھو مالک للإیقاع غیر مالک للاستناد۔” (٦/ ١٣٣)
مگر “جا تُجھے جہاں شادی کرنا ہے کر لے” سے اگر طلاق کی نیت کی ہو تو طلاق بائن واقع ہوتی ہے، چناں چہ ہندیہ میں ہے:
“ولو قال لها: اذهبي فتزوجي تقع واحدة إذا نوى فإن نوى الثلاث تقع الثلاث.”
(١/ ٣٧٦كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات )
علامہ شامی علیہ الرحمہ قول در مختار:” اذْهَبِي وَتَزَوَّجِي تَقَعُ وَاحِدَةٌ بِلَا نِيَّةٍ
” کے تحت تحریر فرماتے ہیں: “لِأَنَّ تَزَوَّجِي قَرِينَةٌ، فَإِنْ نَوَى الثَّلَاثَ فَثَلَاثٌ بَزَّازِيَّةٌ، وَيُخَالِفُهُ مَا فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ لِقَاضِي خَانْ: وَلَوْ قَالَ اذْهَبِي فَتَزَوَّجِي وَقَالَ لَمْ أَنْوِ الطَّلَاقَ لَا يَقَعُ شَيْءٌ لِأَنَّ مَعْنَاهُ إنْ أَمْكَنَكِ اهـ إلَّا أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ الْوَاوِ وَالْفَاءِ وَهُوَ بَعِيدٌ هُنَا بَحْرٌ، عَلَى أَنْ تَزَوَّجِي كِنَايَةٌ مِثْلَ اذْهَبِي فَيَحْتَاجُ إلَى النِّيَّةِ فَمِنْ أَيْنَ صَارَ قَرِينَةً عَلَى إرَادَةِ الطَّلَاقِ بِاذْهَبِي مَعَ أَنَّهُ مَذْكُورٌ بَعْدَهُ وَالْقَرِينَةُ لَا بُدَّ أَنْ تَتَقَدَّمَ كَمَا يُعْلَمُ مِمَّا مَرَّ فِي اعْتَدِّي ثَلَاثًا فَالْأَوْجَهُ مَا فِي شَرْحِ الْجَامِعِ، وَلَا فَرْقَ بَيْنَ الْوَاوِ وَالْفَاءِ، وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي الذَّخِيرَةِ اذْهَبِي وَتَزَوَّجِي لَا يَقَعُ إلَّا بِالنِّيَّةِ وَإِنْ نَوَى فَهِيَ وَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنْ نَوَى الثَّلَاثَ فَثَلَاثٌ“(رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الکنایات)
لہذا صورت مسئولہ میں اگر زید نے اپنے اس قول:” جا تجھے جہاں شادی کرنی ہے کرلے” سے طلاق کی نیت نہیں کی ہے تو ایک طلاق رجعی واقع ہوگی، شوہر کو عدت کے اندر رجعت کا حق حاصل ہے۔اور عدت کے بعد بھی باہمی رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں اور اگر اپنے اس قولِ مذکور سے طلاق کی نیت کی ہے تو دو طلاق بائن واقع ہوں گی ۔اس صورت میں وہ دونوں اگر رضامند ہوں تو عدت کے اندر یا عدت گزرنے کے بعد نکاح کرسکتے ہیں۔ یوں ہی عدت کے بعد وہ عورت جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے. واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ : کمال احمد علیمی نظامی
آپ کے مسائل | زندگی کے ہر گوشے میں معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ سلامی مسائل فقہی مسائل اسلامی معلومات دین اسلام قرآن و حدیث شرعی احکام اسلام میں نکاح طہارت کے مسائل نماز کے احکام روزے کے مسائل زکوٰۃ کے مسائل حج و عمرہ کے مسائل اسلامی شادی کے اصول تجارت کے اسلامی اصول خواتین کے شرعی مسائل بچوں کی اسلامی تربیت اسلامی فقہ فتویٰ آن لائن اسلامی سوال و جواب مسنون دعائیں اسلامی فقہ کے مطابق نکاح کے اصول زکوٰۃ دینے کا صحیح طریقہ طلاق کے شرعی احکام نماز پڑھنے کا درست طریقہ روزے میں کیا چیزیں ممنوع ہیں سلامی مسائل فقہی مسائل اسلامی معلومات دین اسلام قرآن و حدیث شرعی احکام اسلام میں نکاح طہارت کے مسائل نماز کے احکام روزے کے مسائل زکوٰۃ کے مسائل حج و عمرہ کے مسائل اسلامی شادی کے اصول تجارت کے اسلامی اصول خواتین کے شرعی مسائل بچوں کی اسلامی تربیت اسلامی فقہ فتویٰ آن لائن اسلامی سوال و جواب مسنون دعائیں اسلامی فقہ کے مطابق نکاح کے اصول زکوٰۃ دینے کا صحیح طریقہ طلاق کے شرعی احکام نماز پڑھنے کا درست طریقہ روزے میں کیا چیزیں ممنوع ہیں