غیر سید کو سید کہنا کیسا ہے؟ غیر سید خود کو سید کہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید ایک سنی صحیح العقیدہ عالم دین و خطیب ہے، عرصہ دراز سے علمائے کرام و مشائخ عظام اور عوام اہل سنت عام و خاص سب سید جانتے و مانتے ہیں، پر زید کی سیادت کو لیکر کافی عرصہ سے اختلاف بھی رہا، بعض احباب سید مانتے ہیں، جب کہ بعض عوام اہلسنت و علماء اہل سنت سید نہیں مانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ زید کے آباؤ اجداد کے نسب نامے میں بالخصوص شجرہ حسب نسب میں باپ دادا کے علاوہ جتنے بھی بزرگ گزرے ہیں سب اپنے آپ کو خان لکھتے رہے اور کہلاتے رہے، زید کا پورا شجرہ حسب نسب موجود ہے، کورٹ وغیرہ کے پیپر میں بھی موجود ہے جس میں صاف صاف خان لکھا ہوا ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ باپ دادا خان ہوں اور بیٹا خود کو سید لکھنا کہلوانا شروع کر دیں از روئے شرع زید کو سید لکھنا سید کہنا کیسا ہے؟ جب کہ واضح طور پر حسب و نسب میں موجود ہے خان صاحب تو سید کہنا سید مانناکیسا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔

المستفتی: انصار نعمانی مصباحی په تلی رسول پور ، سیدھی (ایم پی )

بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ

الجواب جو شخص اپنا نسب بدلے اس پر اللہ و رسول عز وجل و ﷺ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ عز وجل نہ اس کا فرض قبول فرمائے گا نہ نفل۔
حدیث پاک میں ہے: ” وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا

(صحيح مسلم، کتاب الحج، باب فضائل المدينة، حديث: (۱۳۷۰)

یعنی جو کوئی اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے نسب کا دعوی کرے یا کسی غیر مولی کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے،اس پر اللہ تعالی،فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اور اللہ تعالی قیامت کے دن اس کےفرائض و نوافل کو قبول نہ فرمائے گا۔
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ

(صحيح بخارى، كتاب الفرائض، باب من ادعى الى غير ابيه، حدیث: ٦٧٦٧)

یعنی جو شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے، تو اس پر جنت حرام ہے۔
زید سے متعلق سوال میں مذکورہ تفصیلات اگر یقینی طور پر ثابت ہیں تو زید سید نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو سید کہلوانے اور لکھوانے کی وجہ سے جھوٹا، مکار اور بحکم حدیث ملعون ہے، اس پر لازم ہے کہ صدق دل سے توبہ کرے اور اپنے سید ہونے کا دعوی چھوڑ دے۔
فتاوی رضویہ میں ہے: “ہاں جو واقع میں سید نہ ہو اور دیدہ و دانستہ سید بنتا ہو وہ ملعون ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل ” ۔

(کتاب الحظر والاباحة، ج: ۲۳ ص: ۱۹۸، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، پور بندر، گجرات ) ۔ ایساہی فتاوی علیمیہ ، کتاب الحظر والاباحہ ، ج: ٣ ص: ۳۲۲، ط: کتب خانہ امجد یہ، دہلی میں ہے۔

البتہ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ بعض جو اپنے آپ کو سید کہتے ہیں، ان کے سید ہونے کی تحقیق کرتے ہیں یا ان کے سیادت کی سند ما نگتے ہیں، یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ جو لوگ اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں ہمیں ان کی عزت و تعظیم کا حکم ہے ، ہمیں تحقیقات کی ضرورت نہیں، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم ہے۔ اور خواہ مخواہ سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو انہیں برا بھلا کہنا اور انہیں ذلیل ورسوا کرنا ہرگز جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ ہر انسان اپنے نسب پر امین ہیں۔ اس بارے میں ایک حکایت بطور تنبیہ ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں جس کو اعلی حضرت نے فتاویٰ رضویہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص کسی سید سے الجھ گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں سید ہوں ، تو اس شخص نے کہا آپ کے سید ہونے کی کیا سند ہے۔ اتنا کہنا تھاکہ رات میں اس شخص کو نبی کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی کہ حشر کا میدان ہے اور یہ شخص شفاعت کا طلب گار ہوا اور اس نے عرض کیا میں بھی حضور کا امتی ہوں، فرمایا: تیرے پاس نبی کے امتی ہونے کی کیا سند ہے۔ اس حکایت سے وہ لوگ سبق حاصل کریں جو سادات کرام کی سیادت کی سند ما نگتے پھرتے ہیں، اگر بروز محشر اللہ عز و جل نے ایسے لوگوں سے نبی کا امتی ہونے کی سند مانگ لیا تو کیا جواب دیں گے؟ سید کے بارے میں تو یہاں تک ہے کہ اگر سید بد مذہب ہو جائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک اس کی بدمذہبی حد کفر تک نہ پہنچی ہو۔ ہاں اگر خوب اچھی طرح تحقیق سے معلوم ہو جائے کہ یہ سید نہیں ہے، اور وہ سید بن گیا تو اس کی تعظیم نہ کریں گے، نہ اسے سید کہیں گے بلکہ اور لوگوں کو اس کے فریب سے آگاہ بھی کریں گے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے: “سید اگر بد مذہب بھی ہو جائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک بدمذہبی حد کفر تک نہ پہنچے، ہاں بعد کفر سیادت ہی نہیں رہتی، پھر اس کی تعظیم حرام ہو جاتی ہے۔ اور یہ بھی فقیر بارہا فتوی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ اور خواہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائےتو برا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں۔ “الناس امنأ على انسابهم” ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے ، نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مطلع کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سید سے الجھا، انہوں نے فرمایا میں سید ہوں، کہا: کیاسند ہے تمھارے سید ہونے کی۔ رات کو زیارت اقدس سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا، اعراض فرمایا: اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا امتی ہوں۔ فرمایا: کیا سند ہے تیرے امتی ہونے کی”۔ اھ۔

(رسالہ اسماع اربعین، ج: ۲۹ ص: ۵۸۷، ط: مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر ، گجرات)

واللہ تعالی اعلم۔

کتبه: ابرار احمد القادری المصباحی
دار الافتاء مرکز تربیت افتاء اوجهاگنج، بستی (یوپی)
٤/محرم الحرام ١٤٤٦ھ

الجواب صحیح واللہ تعالیٰ اعلم
محمد ابرار احمد امجدی
خادم افتا مرکز تربیت افتا، اوجھا گنج، بستی (یو پی)

الجواب صحیح واللہ تعالیٰ اعلم

ازہار احمد امجدی ازہری

خادم افتا مرکز تربیت افتا، اوجھا گنج، بستی (یو پی)

 

Gair Sayyed ko sayyad kahna kaisa hai

غیر سید کو سید کہنا کیسا ہے؟ غیر سید خود کو سید کہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

About غلام عبد القادر تیغی مصباحی

Check Also

کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟

کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟ سوال: مفتی صاحب …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *