سوال
ہمارے یہاں کی مسجد میں وضوخانہ کا کام چل رہاہے منبر کے پیچھے کچھ جگہ ہے جہاں پر استنجاءخانہ کے تعلق سے چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کیا منبر کے پیچھے جو جگہ ہے وہاں استنجاء خانہ یا باتھ روم بنانا شریعت کی روشنی میں درست ہے.
سائل۔ ابو عبیدہ رضوی سنبھل مراد آباد
الجواب بعون الملک الوھاب
نمازیوں کے لیے استنجا خانہ مسجد کے دروازے کے پاس خارج مسجد اتنی دوری پر بنانا چاہیے کہ جہاں سے نجاست کی بو وغیرہ مسجد میں نہ محسوس ہو،سنن ابن ماجہ میں ہے :
وَاتَّخِذُوا عَلَی أَبْوَابِهَا الْمَطَاهِرَ، وَجَمِّرُوهَا فِي الْجُمَعِ.
اور مساجد کے دروازاوں پر طہارت خانے بناؤ اور جمعہ کے روز مسجدوں میں خوشبو چھڑکا کرو۔
(ابن ماجه، السنن، کتاب المساجد والجماعات، باب ما یکره فی المساجد، ١/ ٢٤٧، بیروت: دار الفکر)
درمختار میں ہے:
وكذا يكره بول وغائط في ماء ولو جاريا وبجنب مسجد۔
(الدر المختار،كتاب الطهارة ،باب الأنجاس ١/ ٣٤٢)
البحر الرائق میں ہے:
ويكره الوضوءوالمضمضمة( والمضمضة )في المسجد إلا أن يكون موضع فيه اتخذ للوضوء ولا يصلی فيه۔
(البحر الرائق،كتاب الصلوة ،باب مايفسد الصلوة وما يكره فيها٢/ ١٦)
فتاوی رضویہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مسجد کے قریب استنجاخانے بنانے کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مسجد کو بو سے بچانا واجب ہے، ولہذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام، مسجد میں دیا سلائی سلگانا حرام، حتی کہ حدیث میں ارشاد ہوا “وان یمرفیہ بلحم نیئ “یعنی مسجد میں کچا گوشت لے جانا جائز نہیں، حالانکہ کچے گوشت کی بو بہت خفیف ہے، تو جہاں سے مسجد میں بو پہنچے وہاں تک ممانعت کی جائے گی یہ خیال نہ کرو کہ اگر مسجد خالی ہے، تو اس میں کسی بو کا داخل کرنا اس وقت جائز ہو کہ کوئی آدمی نہیں جو اس سے ایذا پائے گا، ایسا نہیں، بلکہ ملائکہ بھی ایذا پاتے ہیں، اس سے جس سے ایذا پاتا ہے انسان مسجد کو نجاست سے بچانا فرض ہے-
(فتاویٰ رضویہ ١٦/ ٢٣٢-٢٣٣ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اگر دروازے کے پاس یا آس پاس کوئی جگہ نہیں جہاں استنجا خانہ بنانا ممکن ہو، مطلوبہ جگہ محراب کے پیچھے ہی ہو تو پھر منبرکے پیچھے اتنی دوری پر بنائیں کہ جہاں سے نجاست کی بدبو مسجد کے اندر محسوس نہ ہو.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ۔ کمال احمد علیمی نظامی
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
مسجد میں استنجا خانہ کہاں بنوائیں؟
masjid me istinja khana kahan banayen