مسئلہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیانِ عظام درج ذیل مسئلہ میں کہ بعض خطبا حضرات خطبہ کچھ یوں پڑھتے ہیں، اما بعد فقد قال اللہ تعالیٰ فی القرآن المجید اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، اس کے بعد کوئی آیت کریمہ پڑھتے ہیں۔ آیا اس طرح پڑھنے سے کوئی خرابی لازم آتی ہے؟ اور پڑھنے والے پر کوئی حکمِ شرع نافذ ہوتا ہے؟
المستفتی: عزیزالرحمٰن قادری علیمی. بلرام پور یوپی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
جواب
الجواب بعون الملک الوہاب
اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔اس لئے کہ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے تعوّذ یعنی أعوذ باللّٰه من الشیطٰن الرجیم پڑھنا مسنون ہے،اور خطیب خطبہ میں آیت قرآنی کو بنیت تلاوت اگر پڑھے تو مسنون ہے کہ اس سے پہلے تعوذ پڑھے۔
لیکن اگر آیت قرآنی بنیت تلاوت نہ ہو تو بھی آیت سے پہلے تعوذ پڑھنے میں حرج نہیں ہے۔اور اس موقع پر تعّوذ پڑھنا”فقد قال اللّٰہ تعالیٰ فی القرآن المجید” کا مقولہ نہیں بنے گا، بلکہ قول کا مقولہ آگے آنے والی قرآن کریم کی آیت ہی ہوگی، اور یہ ”تعوّذ” درمیان میں جملہ معترضہ ہوگا۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
عبد المقتدر مصباحی