a blue background with red and orange letters

بند ڈبوں کے گوشت کا شرعی حکم

مسئلہ

از: شفیق الرحمن نظامی، وسنی ممبئی
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں ۔
آج کل بہت سے مسلم ملکوں میں دوسرے غیر مسلم ملکوں سے یا مسلم ملکوں سے پیکٹ میں بند گوشت کی درآمد اور بر آمد ہوتی ہے۔ ان گوشتوں کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوتی ہے کہ کس نے ذبح کیا ہے ان ڈبوں کے اوپر لفظ حلال لکھا ہوتا ہے ان کا کھانا جائز ہے کہ نہیں ؟

بینوا توجروا۔

جواب

باسمه تعالى و تقدس

الجواب بعون الملک الوهاب
جن جانوروں کا گوشت کھانا شریعت مطہرہ نے جائز قرار دیا ہے ان میں بھی اصل حرمت ہے یعنی جب تک زندہ ہوتے ہیں حرام ہوتے ہیں پھر ذبح شرعی سے حلال ہو جاتے ہیں۔

چنانچہ تنویر الابصار در مختار میں ہے

“حرم حيوان من شانه الذبح مالم يذك ذكاء شرعياء۔ اور محقق اجل علامہ ابن نجیم مصری قدس سرہ رقم طراز ہیں:” الشاة في حال حياتها محرمة

 (ج:1،ص:191)

چونکہ ان جانوروں کا حرام ہونا یقینی ہے تو ان کے حلال ہونے کے لئے ذبح شرعی کا قطعی ویقینی علم ہونا بھی ضروری ہے اگر ذبحِ شرعی کا یقین نہ ہو صرف شبہ ہو تو گوشت ہرگز حلال نہیں ہو سکتا ہے۔ فقہ اسلامی کا مشہور ضابطہ ہے۔ “اليقين لا يزول بالشک“۔

(حوالہ سابق)

اسی ضابطہ کے تحت علامہ حموی قدس سرہ رقم طراز ہیں: ” يجدشاة مذبوحة في بلدة فيها مسلمون ومجوس فلا تحل حتى يعلم انها مذكاة مسلم لانها اصلها حرام وشككنا في الذكاة المبيحة

(حوالہ سابق)

بلکہ علامہ اجل امام ابوزکریا نووی شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مسئلہ میں اجماع نقل فرمایا ہے وہ رقم طراز ہیں
فالمقدور عليه لايحل الا بالذبح فى الحلق واللبة كما سبق وهذا مجمع عليه“۔

(شرح الصحیح لمسلم،ج:2)

ان واضح ارشادات سے مثل آفتاب روشن ہے کہ شریعت طاہرہ میں جن جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے
وہ اصلا حرام ہوتے ہیں اور جب ان کو شرعی طریقہ پر ذبح کر دیا جائے تو اب ان کا کھانا حلال ہو جائے گا اور جب تک ذبحِ شرعی کا یقین نہ ہوگا وہ حرام ہی مانے جائیں گے۔

لہذا جولوگ غیر مسلم ملکوں سے مسلم ملکوں اور شہروں میں آتے ہیں اگر چہ گوشت کے ڈبوں پر حلال لکھا ہواہو لیکن اس گوشت کے ذبح شرعی کا یقین قطعا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس میں متعدد احتمال رہتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اس کو کسی کافر نے ذبح کیا ہو، یا گلا گھونٹ کر مارا ہو یا مشینی ذبیحہ ہو یا ماکول اللحم جانور کے علاوہ کسی اور جانور کا گوشت ہو ان احتمالات کے ہوتے ہوئے کوئی ادنیٰ عاقل بھی اسے حلال نہیں کہہ سکتا ہے چہ جائیکہ کسی فقیہ و مفتی سے اس کی توقع ہو۔
اس لئے غیر مسلم ملکوں سے جو گوشت در آمد کیا جاتا ہے وہ حرام ومردار ہے اس کا کھانا ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے راقم نے عرب ممالک خصوصا سعودیہ عربیہ کے ہوٹلوں پر عام طور سے برازیل، آسٹریلیا وغیرہ سے درآمد گوشت کو پکاتے کھاتے اور بیچتے خریدتے دیکھا اور عموماً حجاج کو بلا دھڑک اسے کھاتے پایا اللہ تعالی مسلمانوں کو اکلِ حلال کی توفیق بخشے۔

علاوہ ازیں ایسے گوشت کے حرام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسی غیر مسلم کے ہاتھ کا گوشت اسی وقت حلال مانا جائے گا جب ذبح سے لے کر مسلمان کے ہاتھ میں آنے تک مسلمان کی نظر سے اوجھل نہ ہوا ہو۔
اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے مجدد دین وملت فقیه فقید المثال سیدنا امام احمد رضا قادری بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں
“حکم شرعی یہ ہے کہ مشرک یعنی کافر غیر کتابی سے گوشت خریدناجائز نہیں اور اس کا کھانا حرام ہے اگر چہ وہ زبان سے سو بار کہے کہ یہ مسلمان کا ذبح کیا ہوا ہے اس لئے کہ امرونہی میں کافر کا قول اصلاًمقبول نہیں ۔ ہاں اگر وقت ذبح سے وقت خریداری تک وہ گوشت مسلمان کی نگرانی میں رہے بیچ میں کسی وقت مسلمان کی نگاہ سے غائب نہ ہو اور یوں اطمینان کافی حاصل ہو کہ یہ مسلمان کا ذبیحہ ہے تو اس کا خریدنا جائز اور ذبیحہ حلال ہوگا۔

(فتاویٰ رضویہ،ج:8)

حاصل کلام یہ کہ غیر مسلم ملک یا کسی غیر مسلم کمپنی سے درآمد گوشت کا کھانا جائز نہیں ہے۔
اب رہا مسلم ملکوں سے در آمد گوشت کا معاملہ تو اس وقت بہت سے مسلم ملکوں میں مشینی ذبیہ رائج ہے جب کہ مشینی ذبیحہ قطعاً حرام ومردار ہے علاوہ ازیں تقریباً تمام ملکوں میں ایسے بد مذہب پائے جاتے ہیں جو اپنی بدمذہبیت میں حد کفر کو پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے بد عقیدوں کا ذبیحہ بھی حرام ہے تو جس ملک سے گوشت درآمد ہوا کیا معلوم ہے کہ ذابح کون ہے اور ذابح میں شک خود ذبح شرعی کے وجود میں شک پیدا کر دے گا اس طرح مسلم ملکوں سے آنے والا گوشت بھی مشکوک ہوا پھر عموماً اس طرح کی اشیا فلائٹ یا سمندری جہاز سے لائی جاتی ہیں اور جہاز کا عملہ کیسا ہوتا ہے یہ سب پر عیاں ہے اس لئے جب تک یہ تحقیق نہ ہو کہ مسلم ملک سے آنے والا گوشت مشینی ذبیحہ نہیں اور کسی نا اہل کا ذبح کیا ہوا نہیں اور نظرِ مسلم سے اوجھل شدہ نہیں ہے اس گوشت کے کھانے سے احتراز لازم ہے۔ درج ذیل حدیث پاک سے اس حکم کی تائید ہوتی ہے “عن عدی بن حاتم عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال اذا ارسلت کلبک و سمیت امسک وقتل فکل واذا خالط كلابا لم يذكر اسم الله عليها فامسكن وقتلن فلا تاكل فانك لاتدرى ايها قتل“،

(صحیح بخاری)

والله تعالى اعلم بالصواب

كتبه: محمد اختر حسین قادری

خادم افتاو درس دار العلوم علیمیه ، جمد اشاہی بستی

بند ڈبوں کے گوشت کا شرعی حکم

Canned Meats Ka Hukm

 

About مفتی محمد نعیم امجدی

Check Also

چیک اپ کے لیے خون نکلوایا تو وضو کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ چیک …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *