موبائل و ٹیلیفون پر نکاح کا حکم

سوال

قبلہ مفتی صاحب، دار العلوم احسن البركات، حیدر آباد

السلام علیکم

بعد گزارش یہ ہے کہ  فتوی درکار ہے میرے چھوٹے بھائی آج کل دبئی میں رہ رہے ہیں ،  ان کا ایک لڑکا ہے ، جس کا نکاح انہوں نے فون پر دبئی سے لاہور میں پڑھوایا مگر ابھی ودائیگی نہیں ہوئی ہے ، تو کیا ٹیلی فون پر نکاح ہو جاتا ہے اور دین اسلام کی رو سے جائز ہے؟ برائے مہربانی فتوی عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔ جہاں تک میرا خیال ہے نکاح نہیں ہوتا۔ پھر بھی یہ دینی مسئلہ ہے اس لئے فتوی ضروری ہے۔ عین نوازش

شیخ مولانا انیس، منظور مارکیٹ لطیف آباد ، حیدرآباد

 الجواب

نکاح مسلم کے لئے منجملہ شرائط کے ایک شرط یہ ہے کہ ایجاب و قبول کے وقت دو مرد یا ایک مرد، دو عورتیں آزاد عاقل بالغ مسلمان موجود ہوں ، اور سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سنے ہوں ، اور یہ سمجھے ہوں کہ یہ نکاح ہو رہا ہے۔

در مختار میں ہے

“ینعقد بإيجاب و قبول و شرط حضور شاهدین حرین أو حر و حرتين مكلفين سامعين قولهما معا على الأصح فاهمين أنه نکاح”

اور ظاہر ہے کہ ٹیلیفون سے نکاح میں یہ شرط نہیں پائی جاتی ؛ تو نکاح کس طرح منعقد ہوگا ؟ ہاں اگر ناکج ٹیلیفون پر کسی کو اپنا وکیل نامزد کر دے ، اور وہ اس کی جانب سے ایجاب و قبول کرے اور گواہ بھی موجود ہوں ، اور وہ یہ کلام سن کر یہ سمجھیں کہ یہ نکاح ہو رہا ہے تو بیشک نکاح ہو جائے گا ؛ کہ اس صورت میں ٹیلیفون کو ایجاب و قبول میں کوئی تعلق نہ رہا ۔ بلکہ تمام دارو مدار وکیل پر ہے۔

واللہ تعالی اعلم

العبد محمد خلیل خان القادری البرکاتی النوری عفی عنه

( فتاوی خلیلیہ ج ٢ ص ٨٢)

 

mobile par nikah ka hukm

موبائل و ٹیلیفون پر نکاح کا حکم

About محمد شہاب الدین علیمی

Check Also

کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟

کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟ سوال: مفتی صاحب …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *