عالم کی توہین کا حکم

مسئله

کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ زید نے کسی مولانا کو معاذاللہ مولنوا کہا تو اسکے لئے کیا حکم ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمایں۔

الجواب

کسى كو “مولنوا” کہنے کی تین صورتیں ہیں:

١-اس لئے کہا کہ وہ مولانا (عالم) ہے تو کہنے والا کافر ہے.

٢-مولانا ہونے کی وجہ سے اس کی تعظیم وتکریم بجا لاتا ہے، مگر کسی جھگڑے یا دشمنی کی وجہ سے کہا،تو سخت فاسق وفاجر ہے.

٣-اگر بلاوجہ کہا، نہ علم کی تحقیر مقصود نہ دنیوی خصومت ہے، بس دل میں بغض رکھتے ہوئے کہا تو قائل مریض القلب، خبیث الباطن ہے، اس کے کفر کا اندیشہ ہے، اعاذنا اللہ تعالیٰ منہ.

فتاوی ہندیہ میں ہے:

” من أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، إذا قال لرجل مصلح: ديدا روى نزد من جنان است كه ديدار خوك يخاف عليه الكفر كذا في الخلاصة” (٢/ ٢٧٠)

مجمع الانھر میں ہے:

وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً.”

(کتاب السیر باب المرتد ج نمبر ۱ ص نمبر ۶۹۵،دار احیاء التراث العربی)

البحر الرائق میں ہے:

ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده”.

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق:٥/ ١٣٤)

امام ابن نجیم مصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ ۔ علم اور علماء کی توہین کفر ہے ۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ : ۱۶۰)

فتاویٰ رضویہ میں ہے :

“اگر علمائے دین کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کفر ہے” ۔( فتاویٰ رضویہ، جلد ۹ ، صفحہ ۱۴۰)

 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان مزید تحریر فرماتے ہیں کہ مجمع الانہر میں ہے:

من قال لعالم عویلم استخفافافقد کفر.

 جو کسی عالم کو مولویا تحقیر کے لئے کہے وہ کافر ہے” ۔( فتاویٰ رضویہ :٩/ ١٣١ ومجمع الانہر ۱/ ۶۹۵) ۔

 فتاویٰ رضویہ میں ہے : “مطلق علما کو یا خاص کسی عالم دین کو بوجہ علم دین برا کہنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے ۔ عورت فوراً نکاح سے نکل جائے گی” ۔

( فتاویٰ رضویہ جلد۶، صفحہ ۱۵۴)

اسی میں ہے :

(١) اگر عالمِ کو اس لئے بُرا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے.

(٢) اور بوجہِ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دُنْیَوی خُصومت کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا تحقیر کرتا ہے تو سخت فاجر ہے.

(٣) اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مَرِیْضُ الْقَلْب وَخَبِیْثُ الْبَاطِن اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ خلاصہ میں ہے : مَنْ اَبْغَضَ عَالِماً مِنْ غَیْرِ سَبَبٍ ظَاھِرٍخِیْفَ عَلَیْهِ الْکُفْر ۔

جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالمِ دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے ۔

( فتاویٰ رضویہ،٢١/ ١٢٩، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور )

بہار شریعت میں ہے:

“علم دین اور علما کی توہین بے سبب یعنی محض اس وجہ سے کہ عالم علم دین ہے کفر ہے” ۔( بہار شریعت ، جلد ٩ ،ص: ۱۷۲)

بعض جہلابےعمل یا بد عمل اہل علم کی توہین اور ان پر لعن طعن کرتے ہیں،یہ کہتے ہوئے کہ یہ علما نہیں ہیں،ان کے تعلق سے امام اہل سنت فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں :

“قرآن شریف انہیں مُطْلَقاً وارِث بتارہاہے ۔ حتی کہ ان کے بے عمل کو بھی یعنی جب کہ عقائدِ حق پر مستقیم اور ہدایت کی طرف داعی ہو کہ گمراہ اور گمراہی کی طرف بلانے والا وارثِ نبی نہیں ، نائبِ ابلیس ہے ۔وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالیٰ ۔

ہاں رب عزوجل نے تمام علماءِ شریعت کو کہاں وارث فرمایا ہے ؟ یہاں تک کہ ان کے بےعمل کو بھی! ہاں, وہ ہم سے پوچھیے , مولیٰ عزوجل فرماتا ہے :

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْھُمْ ظَالِمُُ لِّنَفْسِہ وَمِنْھُمْ مُقْتَصِد وَمِنْھُمْ سَابِق بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ

ترجمہ : پھر ہم نے کتاب کا وارث کیا اپنے چنے ہوئے بندوں کو تو ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرتا ہے اور ان میں کوئی میانہ چال پر ہے اور ان میں کوئی وہ ہے جو اللہ عزوجل کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے گیا یہی بڑا افضل ہے .

(پارہ ٢٢ سورہ فاطر آیت نمبر٣٢)

دیکھو بےعمل کہ اپنی جان پر ظلم کر رہے ہیں انہیں بھی کتاب کا وارث بتایا اور نِرا وارث ہی نہیں بلکہ اپنے چُنے ہوئے بندوں میں گِنا ۔

احادیث میں آیا, رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا :

“ہم میں کا جو سبقت لے گیا وہ تو سبقت لے ہی گیا اور جو مُتَوَسِّط حال کا ہوا وہ بھی نَجات والا ہے اور جو اپنی جان پر ظالم ہے اس کی بھی مغفرت ہے ۔ ”

(تفسیر درمنثور ٧/ ٢٥دارالفکر بیروت)

عالمِ شریعت اگر اپنے علم پر عامِل بھی ہو چاند ہے، کہ آپ ٹھنڈا اور تمہیں روشنی دے ورنہ شمع ہے کہ خود جلے مگر تمہیں نفع دے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

“اس شخص کی مثال جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اُس فَتِیلےکی طرح ہے کہ لوگوں کو روشنی دیتا ہے اور خود جلتا ہے ۔”

(الترغیب والترہیب ١/ ٩٣، دارالفکر بیروت)

(فتاوی رضویہ ٢١/ ٥٣٠-٥٣١) رضافاؤنڈیشن لاہور )

لہذا زید نے اگر عالم ہونے کی وجہ سے کسی کو” مولنوا “کہا تب تو اس پر تجدید ایمان، شادی شدہ ہو تو تجدید نکاح اور سچی توبہ لازم ہے، اور اگر دنیوی خصومت، یا دلی بغض وعناد کی وجہ سے کہا ہے تو بھی اس پر توبہ استغفار ضروری ہے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ ۔ کمال احمد علیمی نظامی

دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی

عالم کی توہین کا حکم

aalim ki taoheen ka hukm

About محمد شہاب الدین علیمی

Check Also

کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟

کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟ سوال: مفتی صاحب …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *