کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص ہے اس کے پاس کوئی تجارت نہیں ہے ؛ مگر یہ صاحب کے پاس اتنا روپیہ ہے کہ وہ روپیہ بینک میں جمع کروادے تو اس کے سود سے اس کا گزارہ ہو سکتا ہے، یہ صاحب ضعیف ہیں، محنت مزدوری ہو نہیں سکتی۔ الحمد للہ دین کے کام میں لگے ہوئے ہیں اور آمدنی کی کوئی صورت نہیں ۔ تو ان کے بارے میں جو سود آئے اور اس سے اپنے گزارہ کا نبھاؤ کرے تو کیا یہ سود ان کے لیے جائز ہے یا نا جائز ؟ یا حرام ہے یا حلال؟
الجواب
جب اس کے پاس اتنا روپیہ ہے تو روپیہ کسی ایمان دار معتمد شخص کو مضاربت پر دے دے یا ڈاک خانہ یا خالص غیر مسلموں کے بینک میں جمع کرے ، ڈاک خانہ اور غیر مسلموں کے بینک سے جو زائد رقم ملے گی وہ سود نہیں ، نفع حلال ہے۔
ہدایہ میں ہے: (( مالهم مباح في دارهم فبأي طريق اخذه المسلم اخذ مالاً مباحاً إذا لم يكن فيه غدر ))
والله تعالى اعلم
حوالہ : فتاوی مفتی اعظم ج ٥ ص ٧٧
آپ کے مسائل | زندگی کے ہر گوشے میں معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ سلامی مسائل فقہی مسائل اسلامی معلومات دین اسلام قرآن و حدیث شرعی احکام اسلام میں نکاح طہارت کے مسائل نماز کے احکام روزے کے مسائل زکوٰۃ کے مسائل حج و عمرہ کے مسائل اسلامی شادی کے اصول تجارت کے اسلامی اصول خواتین کے شرعی مسائل بچوں کی اسلامی تربیت اسلامی فقہ فتویٰ آن لائن اسلامی سوال و جواب مسنون دعائیں اسلامی فقہ کے مطابق نکاح کے اصول زکوٰۃ دینے کا صحیح طریقہ طلاق کے شرعی احکام نماز پڑھنے کا درست طریقہ روزے میں کیا چیزیں ممنوع ہیں سلامی مسائل فقہی مسائل اسلامی معلومات دین اسلام قرآن و حدیث شرعی احکام اسلام میں نکاح طہارت کے مسائل نماز کے احکام روزے کے مسائل زکوٰۃ کے مسائل حج و عمرہ کے مسائل اسلامی شادی کے اصول تجارت کے اسلامی اصول خواتین کے شرعی مسائل بچوں کی اسلامی تربیت اسلامی فقہ فتویٰ آن لائن اسلامی سوال و جواب مسنون دعائیں اسلامی فقہ کے مطابق نکاح کے اصول زکوٰۃ دینے کا صحیح طریقہ طلاق کے شرعی احکام نماز پڑھنے کا درست طریقہ روزے میں کیا چیزیں ممنوع ہیں