مسئلہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین در مسئلۂ ذیل
کہ امام مسجد ہفتہ وار یا ماہانہ شرعاً کتنی رخصت لے سکتا ہے ؟؟ شرعی رخصت کے علاوہ لی گئی رخصتوں پر امام مسجد کو تنخواہ لینا اور متولی یا مسجد کمیٹی کو تنخواہ دینا از روؤ شرع روا ہے یا نہیں ؟؟جواب عنایت فرما کرعنداللہ ماجور ہوں۔
السائل۔(حافظ) سعید احمد واحدی۔جادوں پور ، بریلی شریف ۔
جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
الـــــجـــــــواب بـــتوفــیق اللّٰه التـــواب
شرعی اعتبار سے کوئی متعین مقدار چھٹی کی مقرر نہیں ہے۔پس امام ہو یا مؤذن ان کو صرف اتنی چھٹیوں کی اجازت ہوتی ہے جتنی وہاں رائج و معہود ومعروف ہو یا پھر بوقت تقرر جو طے ہوا ہو ہفتہ وار یا ماہانہ یا سالانہ “فإن المعهود عرفا كالمشروط مطلقا“۔
اس سے جتنی چھٹیاں زائد ہوں خواہ وہ بلاعذر یا کسی عذر سے ہی کیوں نہ ہوں ان ایام کی تنخواہ کی کٹوتی کروانی لازم ہوگی۔ البتہ اگر وہ اتنے دنوں کیلئےکسی امامت کے اہل شخص کو اپنا نائب بنادیتا ہے تو یہ نیابت درست ہے اور اس صورت میں ان دنوں کی تنخواہ کا مستحق اَصْل امام ہی ہے۔ پھر جتنی اُجرت اس نے نائب کے ساتھ طے کی تھی، اَصْل امام اسے دے گا۔
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں “اصل کلی شرعی یہ ہے کہ اجیر خاص پر حاضر رہنا اور اپنے نفس کو کارمقرر کے لئے سپرد کرنا لازم ہے جس دن غیر حاضر ہوگا اگرچہ مرض سے اگرچہ اور کسی ضرورت سے اس دن کے اجر کا مستحق نہیں مگر معمولی قلیل تعطیل جس قدر اس صیغہ میں معروف ومروج ہو عادۃ معاف رکھی گئی ہے اور یہ امر باختلاف حاجت مختلف ہوتا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 369)
اور فرماتے ہیں”مدرسین وامثالہم اجیر خاص ہیں اور اجیر خاص پر وقت مقررہ پر تسلیم نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے۔ اگر تسلیم نفس میں کمی کرے مثلاً بلا رخصت چلا گیا یا رخصت سے زیادہ دن لگائے یا حاضر آیا لیکن وقت مقرر خدمت مفوضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام یا دوسرے شخص کے کام میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ہوئی۔ بہر حال جس قدر تسلیم نفس میں کمی کی ہے اتنی تنخواہ وضع ہو گی۔ معمولی(معروف ومعمول کی)تعطیلیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کہ ان ایام میں بے تسلیم نفس بھی مستحق تنخواہ ہیں۔اھ ملخصا
(فتاویٰ رضویہ جلد 8 ص 169/170)
مزید رقم طراز ہیں “بالجملہ اجارات وغیرہا معاملات میں مدار عرف پر ہے
(فتاویٰ رضویہ جلد 8ص 145)
اور عرف وعادت وقرار کے علاوہ جو چھٹیاں امام کرے وہ ان ایام کی تنخواہ کا مستحق بالکل نہیں ہے نہ اسے لینا روا اور نہ اسے دینا جائز مسجد کا متولی ہو یا انتظامیہ کمیٹی یہ سب صرف امین ہیں مالک نہیں اگر وہ دیں گے تو ان پر تاوان لازم آئے گا۔اگر امام نے لے لیا تو اسے لوٹانا واجب۔ کہ مال وقف ومسجد میں ناجائز دست اندازی ہے۔
فتاویٰ شامی جلد 6 ص 683 میں ہے
“أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفین واجبة.اه ۔اور العنایة مع فتح القدیر جلد 8 ص 519 میں ہے “والأصل فیه أن الشرط إذا کان مقیداً والعمل به ممکناً وجب مراعاته والمخالفة فیه توجب الضمان”
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
عبد المقتدر مصباحى