مسئلہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
بحمدہ تعالیٰ خیریت دارم وخواہم ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ سنت مؤکدہ قبلیہ جماعت فوت ہوجانے کے اندیشے سے چھوٹ جائیں تو بعد فرض نفل کے حکم میں آجاتی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ بعد میں ادا کرتے وقت قعدہ اولیٰ میں درود شریف اور تیسری رکعت میں ثناء پڑھینگے ؟
بینوا و تؤجروا ۔
جواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
الـــــجـــــــواب ھـــو المــوفـــق الــصــــواب
سنت مؤکدہ نہیں بلکہ سنت غیرمؤکدہ جیسے عشاء کی سنت قبلیہ اگر فرض سے پہلے نہ ادا کیا تو پھر بعد فرض وہ نفل کے حکم میں ہوجاتی ہیں۔
جیسا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں “قول فیصل اس مسئلہ میں یہ ہے کہ یہ سنتیں اگر فوت ہو جائیں (یعنی جماعت سے پہلے نہ پڑھ سکا) تو ان کی قضا نہیں لیکن اگر کوئی بعد دو سنت بعدیہ کے پڑھے تو کچھ ممانعت بھی نہیں ہاں اس فعل سے وہ سنن مستحبہ ادا نہ ہوں گی جو عشاء سے پہلے پڑھی جاتی تھیں بلکہ ایک نفل نماز مستحب ہو گی۔
رد المحتار میں انہیں سنن عشاء کی نسبت ہے
“لو قضاها لا تكون مكروهة بل تقع نفلا مستحبا لا علي أنها هي التي فاتت عن محلها.اھ.ملخصا
(فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص 617)
پھر اسی میں آگے رقم طراز ہیں “تحقیق مقام یہ ہے کہ فجر کی سنتیں یاظہر کی پہلی چار سنتیں جو فرض سے پہلے نہ پڑھی ہوں تو بعد فرض بعد سنت بعدیہ کے پڑھیں بشرطیکہ ہنوز وقت ظہر باقی ہو تو بعینہا وہی سنتیں ادا ہوں گی جو فوت ہوئیں۔ اور ان کے سوا اور فوت شدہ سنتیں یا یہی سنتیں بے مراعات شرائط کے پڑھی جائیں گی تو صرف نفل ہوں گی نہ سنت فائتہ۔اھ ملخصا.
اور سنن غیر مؤکدہ ہو یا نوافل اس کے قعدۂ اولی میں درود شریف وتیسری رکعت کی ابتدا میں ثنا وتعوذ پڑھنا مستحب وبہتر ہے جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص 469میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں ہے “پڑھنا بہتر ہے درمختار میں ہے”لا يصلي علي النبي صلى اللّه تعالى عليه وسلم في القعدة الاولي في الاربع قبل الظهر والجمعة ولا يستفتح إذا قام إلي الثالثة عنها وفي البواقي من ذوات الاربع يصلي علي النبي صلى اللّه تعالى عليه وسلم ويستفتح ويتعوذ ولو نذرا لأن كل شفع صلاة
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
عبد المقتدر مصباحی
جو سنتیں نفل کے حکم میں ہوں ان کے قعدۂ اولی میں درود شریف پڑھنا کیسا
Jo Sunnaten Nafl Ke Hukm Men Hon Qaida Ula Men Drood Padna Kaisa