مسئلہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ایک گاؤں کے اسکول کیلئے دو خاتون نے جن میں ایک مسلمہ دوسری غیرمسلمہ ان دونوں خاتون نے مالی تعاون سے اسکول کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہا کرتی تھی دونوں کی وفات ہوگئی اسکول کے کمیٹی والوں نے ان فوت شدہ خاتون کی یاد میں ایک تعزیاتی پروگرام منعقد کیا جس میں مسلم غیر مسلم دونوں سماج کے لوگوں کو مدعو کیا گیا آنے والوں میں مسلم سماج کی جانب سے کچھ دانشور لوگ بھی تھے جو اسٹیج پر بلائے گئے پروگرام شروع ہوا یکے بعد دیگرے سب اپنے اپنے طور پر ان دونوں فوت شدہ خاتون کیلئے اپنی تاثرات پیش کرتے گئے مسلم سماج کی جانب سے بولنے کیلئے دو صاحب بھی بلائے گئے ان میں سے ایک صاحب اپنی گفتگو میں یہ کہ گزرے کہ ان دونوں کو ایشور اللہ جنت میں سورگ میں جگہ عطا فرمائے جبکہ دوسرے صاحب نے بھی اپنی گفتگو سمیٹتے ہوے یہ کہ کے گزرے کہ ایشور انکو سورگ میں جگہ دے گزارش خدمت یہ ہیکہ ان دونوں پر حکم شرع کیا نافز ہوگا مدلل جواب عنایت فرمائیں؟
المستفتی احمد خان سمجور تنہوں نیپال
الجواب بعون اللہ الوھاب
غیر مسلم مرد یا عورت کے لئے دعاے مغفرت کرنا کفر ہے ،قرآن مجید میں ہے :
{مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ} [التوبة:١١٣]
حاشیہ خفاجی علی البیضاوی جلد ۴ ص ۳۵۲ میں ہے:
’’ان المراد بالصلاۃ علیہ صلاۃ المیت المعروفۃ وانما منع منھا علیہ لان صلاۃ المیت دعاء واستغفار و استشفاع لہ و قد منع من الدعاء لمیتھم فیما تقدم فی ھٰذہ.
شامی میں ہے :
رد المحتار میں ہے:”ان الدعاء بالمغفرۃ للکافر کفر”ترجمہ: کافر کے لئے دعاء مغفرت کفر ہے۔(رد المحتار،جلد ٢،کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،مطلب فی الدعاء المحرم،ص ٢٨٨،دار المعرفہ بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے:
”کافر کے لیے دعائے مغفرت و فاتحہ خوانی کفر خالص و تکذیب قرآن عظیم ہے۔(فتاوی رضویہ،٢١/ ٢٢٨،رضا فاؤنڈیشن)
اسی میں حلیہ سے ہے :
فی الحلیۃ نقلاعن القرا فی واقرہ الدعاء بالمغفرۃ للکافر کفر لطلبہ تکذیب اللہ تعالٰی فیما اخبربہ۔حلیہ میں قرافی سے نقل کیا اوراسے برقرار رکھا کہ: کافر کے لئے دُعائے مغفرت کفر ہے کیونکہ یہ خبر الٰہی کی تکذیب کا طالب ہے(فتاوی رضویہ ج ٩/ ٢٥)
اسی میں اسی طرح کے ایک تعزیتی جلسے میں شرکت کا حکم بیان کرتے ہوئے امام اہل سنت فرماتے ہیں :
اگر یہ امور واقعی ہیں تو ایسے جلسوں کی شرکت حرام ہے اور جو ان میں شریک ہو قابل ملامت اور ناقابل امامت ہے۔ نہ وہ کہ احتراز کرے، دشمنان دین سے احتراز فرض ہے، اور فرض کا تارک موجب ملامت اور مانع امامت ہے نہ کہ اس کا بجالانا، اور کافر کے لئے دعائے مغفرت وفاتحہ خوانی کفر خالص وتکذیب قراؑن عظیم ہےکما فی العالمگیریۃ وغیرہاقال اللہ تعالٰی ولا تصل علی احد منہم مات ابداولا تقم علی قبرہ .(فتاوی رضویہ ١٤/ ١٠)
بہارِ شریعت ج ص ١٨٥ پر ہے :
” جو کسی کافر کے لیے اس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے ، یا کسی مُردہ مُرتَد کو مرحوم یا مَغفُور کہے ، وہ خود کافِر ہے۰
فتاوی تاج الشریعہ میں ہے :
کافر کے لئے دعاے مغفرت مستلزم تکذیبِ قرآن ہے۔قرآن فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَایَغْفِرُاَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُمَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاء[سورۂ نساء۔۴۸]
’’بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیاجائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتاہے‘‘۔[کنز الایمان]
اور فرماتاہے:اِن تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃًفَلَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَھُمْ
’’اگرتم سترباران کی معافی چاہوگے تواللہ ہرگزانہیں نہیں بخشے گا‘‘۔[کنز الایمان]
’’ درمختار ‘‘میں ہے:’’الحق حرمۃ الدعاء للکافر‘‘[درمختار،ج،۲،ص،۲۳۶،کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنائز،دارالکتب العلمیۃ، بیروت]
اسی میں ہے:
الدعاء بالمغفرۃ للکافرکفر‘‘۔[ردالمحتار،ج،۲،باب الصلوۃ،مطلب فی الدعاء المحرم،دارالکتب العلمیۃ، بیروت]
(فتاوی تاج الشریعہ ج دوم ١٧٤)
فتاوی شارح بخاری میں ہے:
”کافر کے لیے ایصال ثواب کرنا ،فاتحہ پڑھنا کفر ہے۔ایسے شخص پر توبہ، تجدید ایمان اور تجدید نکاح لازم ہے۔(فتاوی شارح بخاری،٢/ ٣٩٤)
لہذاجن مسلمانوں نے غیر مسلمہ کی تعزیتی مجلس میں اس کو غیرمسلم سمجھتے ہوئے شرکت کی وہ سخت گنہ گار ہیں ،ان پر توبہ لازم ہے ،اور اگر مسلمہ سمجھتے ہوئے شریک ہوئے تو تجدید ایمان اور شادی شدہ ہوں تو تجدید نکاح بھی ضروری ہے۰
رہے وہ دونوں لوگ جنھوں نے غیر مسلمہ کے جنتی ہونے کی دعا کی ان پر حکمِ کفر ہے ،ان پر تجدید ایمان ،شادی شدہ ہوں تو تجدید نکاح اور سچی توبہ لازم ہے۰
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی
کافر کے لیے دعائے مغفرت کا حکم
Kafir ke liye maghfirat ki dua Karna kaisa