خدا کو ہر جگہ موجود کہنا۔
مسئولہ محمد اختر حسین نوری نیپالی ، ۲۶ ربیع الاول ۱۳۹۹
جو کہتا ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے، مگر مراد اس سے میری یہ ہے کہ خدا کی طاقت ہے جگہ موجود ہے اور دلیل پیش کرتا ہے “ید الله فوق ایدیهم ” کہ جس طرح اس آیت کے ٹکڑے میں ”ید“ سے مراد طاقت و قدرت ہے، اسی طرح ہم اس جملہ سے طاقت و قدرت مراد لیتے ہیں۔ خالد کہتا ہے کہ خدا مکان سے منزہ ہے، اس کی طرف مکان کی نسبت نہیں کر سکتے ورنہ احتیاج الی المکان لازم آئے گا جو واجب الوجود کے منافی ہے۔ طرفین میں سے کون حق پر ہے تحریر فرمائیں۔
الجواب : یہ جملہ کہنا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے، سخت حرام اور اپنے ظاہر معنی کے لحاظ سے کفر ہے ۔ حدیقہ ندیہ میں ایسے قائل کو کافر کہا ہے، اگر چہ مذہب منتظمین مختار للفتوی پر کا فرنہیں کہا جائے گا مگر احتیاطا توبہ تجدید ایمان و نکاح کا حکم دیا جائے گا ۔ یہ تاویل کہ مراد یہ ہے کہ خدا کی قوت ہر جگہ موجود ہے، تاویل بعید ہے۔ “ید الله فوق ایدیهم ” پر قیاس ، قیاس مع الفارق ہے، عربی میں بھی اور اردو میں بھی۔ ید ہاتھ بمعنی قوت مستعمل ہے مگر ذات کو موجود بول کر قوت مراد لینا مستعمل نہیں ۔ علاوہ ازیں ید الله فوق ايديهم متشابہات سے ہے۔ متشابہات کی پیروی نص قرآن حرام فرمایا گیا: فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ) ابدا علما نے تصریح فرمائی کہ اگر چہ نصوص میں “ید” “وجہ” ، “قدم “، وارد ہیں مگر سواۓ مواقع ورود اور کہیں استعمال کرنا ممنوع ہے۔ لہذا یہ کہنا بھی حرام ہے کہ اللہ کے لیے ہاتھ ہے، اگر چہ ہاتھ سےمراد قوت ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم
- فتاویٰ شارح بخاری جلداول