کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟
سوال: مفتی صاحب کیا غوث اعظم نے 12 سال بعد ڈوبی ہوئی بارات والی کشتی سلامت نکالی تھی ؟
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب:
سوال میں پوچھی گئی غوث اعظم کی کرامت عوام میں کافی مشہور ہے ، اور اس میں کوئی ایسی بات بھی نہیں جو شریعت کے خلاف ہو، لہذا اسکا انکار نہیں کرنا چاہیے ، البتہ کسی مستند کتاب میں اس کرامت کا ذکر نہیں۔ اولیاء اللہ سے اس طرح کی کرامات کے ظہور پر قرآن وحدیث سے کثیر دلائل موجود ہیں، جیسے آصف بن برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس کو یمن سے شام میں لے آنا، حضرت مریم کا بغیر خاوند حاملہ ہونا اور غیبی رزق کھانا، اصحاب کہف کا بے کھانا، پانی صد ہا سال تک زندہ رہنا کرامات اولیاء ہیں، جو قرآن مجید سے ثابت ہیں، یونہی حضور غوث پاک کی کرامات شمار سے زیادہ ہیں جو مستند کتب سے ثابت ہیں۔
شرح فقہ اکبر میں ہے: الكرامات للاولياء حق اى ثابت بالكتاب والسنة ولا عبرة بمخالفة المعتزلة واهل البدعة في انكار الكرامة يعنى كرامات اولیاء حق ہیں۔ یعنی قرآن وسنت سے ثابت ہیں اور معتزلہ اور بدعتیوں کا کرامات اولیاء کا انکار کرنا، معتبر نہیں۔ (شرح فقہ اکبر ، صفحہ 130، مطبوعہ ملتان ) فتاوی رضویہ شریف میں اس کرامت کے حوالے سے سوال کے جواب میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں: پہلی (بارہ برس بعد بارات نکالنے والی روایت اگرچہ نظر سے کسی کتاب میں نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے، اور اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں، اس اکا انکار نہ کیا جائے۔
(فتاوی رضویہ ، جلد 29، ص 630 ،