مسئله
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین…….
اس مسئلہ میں زید دریافت کرتا ہے کہ طالب علم قرآن عظیم کا سبق یاد کرتا ہو اس حالت میں کہ اس کا ہر حرف غلط ادا ہوتا ہو اور استاد ایک جلسہ کیے ہوئے ہو اس حالت میں کہ کچھ حقہ نوشی کرتے ہوں اور کچھ گفتگو دنیوی اور استاد بھی ہر شخص سے باتیں کر رہے ہیں، اور کھانا کھارہے ہیں مگر طالب عل کو سبق صحیح کرانے کی استاد کو کچھ فکر نہیں ہے یہ معاملہ دیکھ کر بکر نے کہ دیا کہ ایسی حالت میں یہ سب کام حرام ہیں ، تو استاد نے جواب دیا کھانا کھانا بھی؟ بکر نے کہا کہ ہاں جب کہ اس کی کوئی خبر ہی نہیں لی جارہی ہے۔ لہذا حکم شرع استاد و بکر و عام کے واسطے کیا ہے؟
از بریلی صالح مگر مسئولہ کفایت حسین صاحب رضوی یکم شعبان 56 ه
الجواب
قرآن عظیم کا سننا ہر شخص پر جو وہاں جہاں قرآت ہو رہی ہو حاضر ہو فرض ہے اس وقت بولنا ہی نہیں ہر کام کہ مخل استماع ہوگا نا جائز ہے۔
قال تعالى: ( وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ، وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ)
ترجمہ : جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔
خصوصا استاد کہ اس پر اصلاح کے لیے بھی سننا ضروری ہے اور طالب علم جو غلطی کرے اس کا بتانا لازم خصوصاً قرآن عظیم میں ۔ بے شک وہ استاد بے پرواہی اور ترک فرض استماع دونوں باتوں کا ملزم ہوگا جب کہ بعد قرآت وہ کلام یا کسی کام میں مشغول ہوا ہو۔ یوں ہی وہ لوگ جو وہاں بیٹھے ہوں ۔ اور اگر مشغول تھے پھر ان کے نزدیک طالب علم نے اپنا پڑھنا شروع کیا۔ تو اس صورت میں یہ لوگ معذور رکھے جائیں گے۔ ان پر الزام نہ ہوگا۔
غنيه میں ہے: صبي يقرأ في البيت وأهله مشتغلون بالعمل يعذرون في ترك الاستماع إن افتتحوا العمل قبل القرأة وإلا فلا. والله تعالى اعلم (۱)
ایک بچہ گھر میں قرآن عظیم کی تلاوت کر رہا ہے اور گھر والے کام میں مشغول ہیں تو وہ ترک استماع میں معذور سمجھے جائیں گے، اگر انھوں نے تلاوت شروع ہونے سے پہلے کام کا آغاز کیا ہو۔ ورنہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔
از : فتاوی مفتی اعظم ہند ، جلد دوم،کتاب العقائد والکلام ۱۷