راستے وغیرہ میں گرا ہوا مال کا حکم

مسئله

بازار یا راستے میں روپیہ یا کوئی چیز ملے یا مسجد میں کوئی شخص اپنا سامان بھول سے چھوڑ کر چلا جائے تو اسے کیا کیا جائے؟
بينوا توجروا

الجواب

جو مال کہیں پڑا ہوا ملے اور اس کا مالک معلوم نہ ہو اصطلاح شرع میں اسے لقطہ کہتے ہیں ، اور لقطہ امانت کے حکم میں ہے ، اٹھانے والے پر لازم ہے کہ لوگوں سے کہہ دے کہ جو کوئی گمی چیز ڈھونڈتا ہوا ملے اسے میرے پاس بھیج دینا اور جہاں وہ چیز پائی ہو وہاں اور بازاروں اور شارع عام اور مسجدوں میں اعلان کرے ، اگر مالک مل جائے تو اسے دیدے ، ورنہ اتنا زمانہ گزرنے پر کہ ظن غالب ہو جائے کہ اب اس کا مالک تلاش نہ کرے گا۔ اسے اختیار ہے کہ اس کی حفاظت کرے یا اگر خود مسکین ہے تو اپنے اوپر صرف کرے ورنہ صدقہ کر دے ۔ ایسا ہی بہار شریعت حصہ دہم صفحہ ۱۰ ، اور فتاوی امجدیہ جلد دوم صفحہ ۳۱۴ پر ہے۔

اور فتاوی عالمگیری جلد دوم صفحہ ۲۸۹ پر ہے:
يعرف الملتقط اللقطة في الاسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها و بین أن يتصدق بها.
اور در مختار میں ہے:
فإن أشهد عليه عرف أى نادي عليها حيث وجدها و في المجامع إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها فينتفع الرافع بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير.
( الدر المختار فوق رد المحتار جلد چہارم صفحه ۲۷۸)
و الله تعالی اعلم.

الجواب صحیح: جلال الدین احمد الامجدی
كتبه : محمد حبيب الله المصباحی

 

راستے وغیرہ میں گرا ہوا مال کا حکم

raste me gira huaa maal ha hukm

About محمد شہاب الدین علیمی

Check Also

کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟

کیا غوث اعظم نے ڈوبی ہوئی بارات بارہ سال بعد زندہ نکالی؟ سوال: مفتی صاحب …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *